Daily Roshni News

مائنڈ سائنس۔۔۔ تحریر۔۔۔ ڈاکٹر قاریوسف عظیمی۔۔۔قسط نمبر2

مائنڈ سائنس

انسان کو قدرت سے ملنے والی بے شمار صلاحیتوں کا علم

تحریر۔۔۔ ڈاکٹر قاریوسف عظیمی

2قسط نمبر

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ مائنڈ سائنس۔۔۔ تحریر۔۔۔ ڈاکٹر قاریوسف عظیمی) خیال کہاں سے آتا ہے۔۔۔؟خیال کہاں سے آتا ہے ؟ سلسلہ عظیمیہ کے امام قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں:جب ذہن میں کوئی خیال آتا ہے تو اس کا کوئی کائناتی سبب ضرور موجود ہوتا ہے۔ خیال کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ذہن کے پردوں میں حرکت ہوئی۔ یہ حرکت ذہن کی ذاتی حرکت نہیں۔ اس کا تعلق کائنات کے ان تاروں سے ہے جو کائنات کے نظام کو ایک خاص ترتیب میں حرکت دیتے ہیں مثلاً جب ہوا کا کوئی تیز جھونکا آتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ کر نہ ہوائی میں کوئی تغیر واقع ہوا۔ اس ہی طرح جب انسان کے ذہن میں کوئی چیز وارد ہوتی ہے تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ انسان کے لاشعور میں کوئی حرکت واقع ہوئی ہے۔ اس کا سمجھنا خود ذہن انسانی کی تلاش پر ہے۔

 مثبت اور منفی حواس :ذہن انسانی کی دو سطح ہیں۔ ایک سطح وہ ہے جو فرد کی ذہنی حرکت کو کائناتی حرکت سے ملاتی ہے یعنی یہ حرکت فرد کے ارادوں اور محسوسات کو فرد کے ذہن تک لاتی ہے۔ ذہن کی دونوں سطحیں دو قسم کے حواس تخلیق کرتی ہیں۔ اگر ایک سطح کی تخلیق کو مثبت حواس کہیں تو دوسری سطح کی تخلیق کو منفی حواس کہہ سکتے ہیں۔

در اصل مثبت جو اس ایک معنی میں حواس کی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم بیداری کی حالت میں واقع ہوتی ہے۔ اس تقسیم کے حصے اعضائے جسمانی ہیں چنانچہ ہماری جسمانی فعلیت میں یہی تقسیم کام کرتی ہے۔ ایک ہی وقت میں آنکھ کسی ایک شے کو دیکھتی ہے اور کان کسی آواز کو سنتا ہے ۔ ہاتھ کسی تیسری شے کے ساتھ مصروف ہوتے ہیں اور پیر کسی چوتھی چیز کی پیمائش کرتے ہیں۔ زبان کسی پانچویں شے کے ذائقہ میں اور ناک کسی اور چیز کے سونگھنے میں مشغول رہتی ہے۔ دماغ میں ان چیزوں سے الگ کتنی ہی اور چیزوں کے خیالات آرہے ہوتے ہیں۔ یہ مثبت حواس کی کار فرمائی ہے۔ اس کے بر عکس منفی حواس میں جو تحریکات ہوتی ہیں ان کا تعلق انسان کے ارادے سے نہیں ہوتا۔

مثلاً خواب میں باوجود اس کے کہ مذکورہ بالا تمام حواس کام کرتے ہیں، اعضائے جسمانی کے سکوت سے اس بات کا سراغ مل جاتا ہے کہ حواس کا اجتماع ایک ہی نقطہ ذہنی میں ہے۔ خواب کی حالت میں اس نقطہ کے اندر جو حرکت واقع ہوتی ہیں، وہی حرکت بیداری میں جسمانی اعضاء کے اندر تقسیم ہو جاتی ہے۔ ہونے سے پیشتر ہم ان حواس کو منفی حواس کا نام دے سکتے ہیں۔ لیکن جسمانی اعضاء میں تقسیم ہونے کے بعد ان کو مثبت کہنا درست ہو گا۔ [ لوح و قلم، قلندر بابا اولیاء، صفحه : 222-223]

انسانی دماغ:روحانی اسکالر خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں،

آدم کی اولاد میں زندگی گزارنے کے لیے دو دماغ استعمال ہوتے ہیں۔ ایک دماغ کا تجربہ ہمیں دن کے وقت بیداری میں اور دوسرے دماغ کا تجربہ رات کے وقت نیند میں ہوتا ہے ۔ ایک دماغ دائیں طرف ہوتا ہے دوسرا دماغ بائیں طرف ہوتا ہے۔ دائیں دماغ کا تعلق لاشعوری حواس سے ہے اور بائیں دماغ کا تعلق شعوری حواس سے ہے۔ دایاں دماغ وجدانی دماغ ہے اور بایاں دماغ منطقی اور تنقیدی دماغ ہے۔ دائیں دماغ میں لا محدود علوم ہیں اور بائیں دماغ میں محدود علوم کا ذخیرہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہم آٹھ ہزار یادداشتیں فی سیکنڈ کے حساب سے اپنے دماغ میں ریکارڈ کرتے جائیں تو اس میں اتنی گنجائش ہے کہ ہم لگاتار بغیر کسی وقفہ کے 75 سال تک یاد داشتیں ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ مشہور سائنس دان آئن سٹائن (Einstein) کا دماغ امریکہ کی لیبارٹری میں محفوظ ہے۔ بڑے بڑے محققین نے اس پر محض اس غرض سے ریسرچ کی ہے کہ وہ کسی طرح جان لیں کہ آئن سٹائن کی دماغی ساخت میں ایسی کون سی صلاحیت تھی جس نے اسے جینئس بنادیا۔ ابھی تک انہیں ایسی کوئی چیز نہیں مل سکی جو عام آدمی اور جینئس آدمی کے دماغ میں امتیاز پیدا کر سکے۔ آئن سٹائن کو اس صدی کا عظیم اور جینئس سائنس دان کہا جاتا ہے اپنے بارے میں اس نے خود کہا تھا کہ تھیوریز میں نے خود نہیں سوچیں بلکہ وہ اس پر الہام ہوئی تھیں، یاد رہے یہ وہی آئن سٹائن تھا جو اسکول کے زمانے میں نالائق ترین طالب علم شمار کیا جاتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایک نالائق طالب علم جینٹکس کیسے بن گیا؟….

دنیا بھر میں Sleep Laboratories میں ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بلاتی جینس اور عام آدمی جب سوتا ہے تو اس کا دماغ Data Processing کا کام شروع کر دیتا ہے۔

فی زمانہ زیادہ تر لوگ بائیں دماغ کے زیر اثر ہیں۔ بائیں دماغ میں نسیان کا عمل دخل ہے۔ احسان و تصوف خواجہ شمس الدین عظیمی، صفحہ : 321-322]

خیال کی آمد اور اس کے بعد عموماً جو مراحل سامنے آتے ہیں وہ کچھ اس طرح ہوتے ہیں۔

-1 خیال کی آمد

2۔ خیال پر عمل کی خواہش

اس خواہش کی تکمیل کے لیے عملی اقدام

قابل غور بات یہ ہے کہ بعد کا ہر مرحلہ پہلے مرحلہ سے رفتار میں بتدریج کم ہوتارہتا ہے۔ رفتار میں ہونے والی اس کمی کو ہم نے بطور مثال مندرجہ بالا چارٹ کے ذریعہ پیش کیا ہے۔ خیال کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ اس خیال کو درست فہم کے ساتھ وصول کرنے کی رفتار اس سے کم ہوتی ہے۔ اس خیال پر عمل کرنے کی خواہش کی رفتار مزید کم ہو جاتی ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے عملی اقدام کی رفتار بے شمار لوگوں میں بہت ہی کم ہو جاتی ہے۔ اس بتدریج کمی کی وجہ یہ ہے کہ خیال کو عملی شکل میں ڈھالنے کے لیے ذہنی و جسمانی مشقت اور مادی وسائل اور ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے، تا ہم ایک بات واضح رہے کہ خیال کی آمد کے بعد دوسرے مراحل کی رفتار میں بہت زیادہ کمی ہو جانا خیال وصول کرنے والے کی سنتی، اس کی قوت ارادی میں کمی اور اس کی غیر مستقل مزاجی کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔ اپنی ذہنی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کے لیے ان خامیوں یا

کم زوریوں کو سمجھنا اور ان کا تدراک کے لیے ضروری اقدامات کرنا چاہیں۔

خیال کی آمد کی ایک اور صورت بھی ہے اسے ہم انتقال خیال کہہ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اطلاعات کا تجربہ آپ کو بھی ہوا ہو۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے ذہن میں بغیر کسی وجہ کے اچانک اپنے کسی بہت پرانے دوست، کسی عزیز یا واقف کا خیال آتا ہے۔ یہ خیال آنے کے تھوڑی ہی مدت کے اندر اس شخصیت سے یا تو ملاقات ہو جاتی ہے یا اس کا ٹیلیفون آجاتا ہے یا کسی اور ذرائع سے اس کے حوالے سے کوئی بات ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ہم سوچتے ہیں کہ ہمیں ابھی تو ان کا خیال آیا تھا۔ یہ بات جن سے متعلق ہوا نہیں بتائی جائے۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  اپریل 2024

Loading