ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک بچے کے والدین ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں اسے ٹرین کے ذریعے اس کی دادی کے پاس لے جاتے۔ پھر وہ اسے چھوڑ دیتے اور اگلے دن واپس آ جاتے۔
پھر ایک سال ایسا ہوا کہ بچے نے ان سے کہا: “میں اب بڑا ہو گیا ہوں، اگر میں اس سال اکیلے دادی کے پاس جاؤں تو؟”
والدین نے ایک مختصر بحث کے بعد اتفاق کیا اور پھر مقررہ دن اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پہنچے کیونکہ والد نے سفری ہدایات دینا شروع کیں۔
تو بیٹا تنہا لہجے میں کہنے لگا۔
اباجان! میں نے یہ ہدایات ہزار بار سنی ہیں! “
ٹرین کے روانہ ہونے سے چند لمحے پہلے اس کے والد اس کے قریب آئے اور اس کے کان میں سرگوشی کی:
“یہ لو، اگر آپ خوفزدہ ہیں یا بیمار ہیں تو یہ آپ کے لیے ہے” اور اپنے بچے کی جیب میں کچھ ڈالیں۔
بچہ پہلی بار والدین کے بغیر ٹرین میں اکیلا بیٹھا تھا۔
وہ کھڑکی سے باہر زمین کے حسن کو دیکھتا اور اپنے اردگرد اٹھنے والے اجنبیوں کے شور کو سنتا، کبھی اپنی سیٹ سے اٹھ کر کیبن سے باہر نکل جاتا، کبھی گاڑی اندر چلا جاتا۔
ٹرین کا ٹی ٹی بھی چونک گیا اور اس سے بغیر کسی ساتھی کے تنہا سفر کے بارے میں پوچھا۔
اسی طرح ایک عورت نے غمگین نظروں سے اسے دیکھا۔
لڑکا اس وقت تک الجھا ہوا تھا جب تک اس نے محسوس نہیں کیا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔
پھر وہ بوکھلا گیا… وہ اپنی کرسی سے بھی گر پڑا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اس لمحے اسے اپنے والد کی سرگوشی یاد آئی کہ اسی لمحے اس نے میری جیب میں کچھ ڈال دیا۔
اس نے کانپتے ہاتھ سے جیب میں تلاش کیا تو ایک چھوٹا سا کاغذ ملا۔ اس نے اسے کھولا: ایسا لکھا تھا۔
“بیٹا میں ٹرین کے آخری ڈبے میں ہوں۔”
یہ الفاظ پڑھتے ہی اس کی روح لوٹ آئی۔
! زندگی ایسی بھی ہے، ہم اپنے بچوں کے پروں کو چھوڑ دیتے ہیں، انہیں خود پر اعتماد دلاتے ہیں… لیکن جب تک ہم زندہ ہیں، ہمیں ہمیشہ آخری کیبن میں رہنا چاہیے.. کیونکہ یہ ان کے لیے تحفظ کے احساس کا ذریعہ ہے۔