غزل
شاعر۔۔۔ناصر نظامی
میں آن کے شہر میں اس واسطے نہ اٹکا تھا
کہ اب تو جان کے جا نے کا واہا ں کھٹکا تھا
جو اپنے سر کو ذرا بھی اٹھا کے چلتا تھا
سر سر دار سدا اس کا دیکھا لٹکا تھا
اسی نے آ ج اٹھا یا تھا پہلا سنگ مجھ پر
نشاں صلیب کا جس کے گلے میں لٹکا تھا
طوافِ کوئے ملامت سے باز نہ آیا
ہمارا دل بھی بہت پکا اپنی ہٹ کا تھا
میں جانتا تھا کہ وہ منکر محبت ہے
میرا دل اسکی کی محبت میں پھر بھی اٹکا تھا
یوں ان کی برق نگاہی کا لپکا تھا کوندا
جیسے بجلی کا لگا میرے دل کو جھٹکا تھا
وہ ان کی ایک نظر سے ہی ہو گیا ہے چت
تمام دنیا کے رستم کو جس نے پٹکا تھا
وہ میرے خانہ دل میں مقیم تھا ناصر
میں جس کی جستجو میں جا بجا یو ں بھٹکا تھا
ناصر نظامی