خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں
تحریر۔۔۔لیوٹالسٹائی
(قسط نمبر1)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔۔۔ تحریر۔۔۔لیوٹالسٹائی)آیوان اکسیونوف ، ولاڈیمر نام کے ایک شہر کا سوداگر تھا۔ اس کے پاس دو دکانیں اور ایک گھر تھا۔ اکسیونوف بے حد خوبصورت اور گانے کا شوق رکھنے والا تھا۔ اپنی جوانی کی شروعات سے ہی اس نے شراب پینا شروع کر دی تھی اور آدھی جوانی ہوتے ہوتے اس میں برباد ہونا شروع ہو گیا تھا ، مگر شادی ہونے کے بعد اس نے اپنی شراب پینے کی لت کو کم کیا،اورپھرصرف کبھی کبھی پیا کرتا تھا۔ ایک بارحسب معمول جب وہ گرمیوں میں اپنے گھر کو چھوڑ کے نزھنی میلے میں کام کے سلسلے سے جا رہا تھا تو اس کی بیوی نے اس سے کہا۔
“آیوان،آج مت جاو، میں نے تمہارے بارے میں ایک برا خواب دیکھا ہے۔”
“ہا ہا ، تمہیں کہیں اس بات کا ڈر تو نہیں لگ رہا کہ میں میلے میں جا کر رنگ رلیاں مناؤںگا۔” اکسیونوف نے کہا اور ہنسنے لگا۔
“مجھے نہیں پتا کہ میں نے جو برا خواب دیکھا ہے اس سے مجھے کیوں ڈر لگ رہا ہے، مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ میں اس سے ڈر رہی ہوں یا کسی اور ڈر سے ۔ مجھے جو پتا ہے وہ یہ کہ میں نے دیکھا کہ تم نے جب واپس آکر اپنی ٹوپی اتاری تو تمہارے بال سفید ہو چکے تھے”
“وہ ایک اچھا خواب تھا ۔ دیکھنا میں ضرور جب واپس آؤں گا تو کتنے تحفے لاؤں گا”اکسیونوف نے ہنس کر کہا۔
اور پھر اس نے اپنے گھر والوں کو الوداع کہا اور اپنے سفر پر چل پڑا۔ اپنا آدھا سفر پورا کرنے کے بعد اس کی راستے میں ایک اور سوداگر سے ملاقات ہوئی جو اس کا پرانا جاننے والا تھا۔ انہوں نے ایک ہی سرائے میں کمرے لیے ، شام کی چاے ساتھ میں پی اور پھر اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلے گئے۔
اکسونوف رات میں کافی جلدی ہی سو گیا تھا اس لئے اس کی آنکھ صبح طلوع فجر کے وقت ہی کھل گئی تھی۔ اس نے اپنے گاڑی ہانکنے والے کو اٹھا کر گھوڑوں کو گاڑی سے ملانے کو کہا۔ اس کے بعد وہ سرائے کے مالک کے پاس گیااور اپنا کرایہ چکتا کر کےاس نے پھر سے اپنا سفر شروع کر دیا۔
تقریباً پچیس میل کا سفر طے کرنے کے بعد گاڑی ہانکنے والے نے گھوڑوں کو چرانے کے لئے گاڑی کو روک دیا۔ چونکہ گاڑی ایک سرائے کے پاس رکی تھی اس لئے ، اکسیونوف کو آرام کرنے میں پریشانی نہیں ہوئی ، اس نے کچھ دیر سرائے کے ہال میں بیٹھ کر آرام کیا اور پھر باہر پورچ میں نکل کر چائے کا آرڈر دیا اور ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ کر اپنا گٹار نکالا اور اس کی دھن پر گنگنانے لگا۔ٍاچانک ، ایک گاڑی جسے تین گھوڑے کھینچ رہے تھے وہاں آکر رکی اور اس میں سے دو آفیسر نکل کر اکسیونوف کی طرف بڑھے۔ انہوں نے اس کی طرف پہنچ کر اس سے پوچھ تاچھ کرنا شروع کی، جیسے کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟اکسیونوف نے ہر سوال کا جواب پورے سلیقے سے دیا اور پھر ان سے پوچھا۔
“کیا آپ میرے ساتھ چائے پینا پسند کریں گے”
اکسیونوف کے اس سوال کا جواب دینے کے بجائے ان دو آفیسروں نے اس سے الٹے سوال کرنا شروع کر دیے۔ جیسے کہ تم نے کل کی رات کہاں گزاری ؟ کیا تم اکیلے تھےیا پھر کسی سوداگر کے ساتھ تھے؟کیا تم نے اس کو آج صبح دیکھاتھا؟ تم صبح ہونے سے پہلے ہی وہاں سے کیوں نکل آئے؟
اکسیونوف ان سوالوں کو سن کر سوچ میں پڑ گیا کہ اس سے اس طرح کے سوالات کن وجوہات کی بنا پر کئے جا رہے ہیں۔ مگر پھر بھی اس نے ہر ایک سوال کا جواب پوری سچائی کے ساتھ دیا اور پھر کہنے لگا۔
“آپ دونوں مجھ سے ایسے سوالات کیوں کر رہے ہیں جو کسی چور یا ڈاکو سے کئے جاتے ہیں۔ میں اپنے کام کے سلسلے میں یہاں سے گزر رہا ہوں اور مجھ یہ سوالات کرنے کا کیا تک بنتا ہے؟”
“میں اس علاقہ کا پولیس آفیسر ہوں اور میں تم سے یہ سب سوالات اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ جس سوداگر کے ساتھ تم نے پچھلی رات گزاری تھی ، اس کی لاش آج صبح اس سرائے سے برامد ہوئی ہے۔ اس کا قتل گلا کاٹ کے کیا گیا ہے ۔ ہمیں تمہارےسامان کی تلاشی لینی ہوگی۔”ان میں سے ایک آفیسر نے یہ کہنے کے بعد دوسرے افسر سے تلاشی لینے کو کہا ۔ ایک آفیسر اپنے دوسرے آئے ہوئے ساتھیوں کو لے کر سرائے میں داخل ہوا۔ان لوگوں نے اکسیونوف کا بیگ کھولا اور اس کی تلاشی لینی شروع کردی۔ اچانک ایک آفیسر نے اس بیگ میں سے ایک چاقو نکالا اور چلا کر بولا۔ “یہ کس کا چاقوہے؟”
اکسیونوف کی نظریں جب اس چاقو پر پڑی جس پر خون لگا ہوا تھا، تو اس کے حواس اڑگئے۔
“ایسا کیسے ہوا؟ اس چاقو پر خون کیسے لگا؟”
اکسیونوف نے جواب دینے کی کوشش کی مگر اس کہ منہ سے سوائے اس کے ایک لفظ بھی اور نہ نکلا کہ “مجھے نہیں معلوم”
“آج صبح اس سوداگر کی لاش برامد ہوئی جس کا گلا کٹا ہوا تھا۔ ایک تم ہی ہو جس نے یہ کیا ہوگا۔کمرا اندر سے بند تھا اور وہاں کوئی نہیں تھا۔یہ رہا وہ خون سے لت پت چاقو اور تمہارا چہرا صاف صاف بتا رہا ہے کہ یہ خون کس نے کیا ہے۔بتائو مجھے کہ تم نے اسے کیسے مارا ؟کتنا پیسہ لوٹ کربھاگ رہے تھے تم؟”اس پولیس آفیسر نے اکسیونوف سے کہا جو اس کے پاس کھڑا تھا۔
اکسیونوف نے قسم کھائی کہ اس نے کچھ نہیں کیا ہے، اس نے چائے پینے کے بعد سے اس سوداگر کو دیکھا تک نہیں تھا،اس کے پاس ایک پیسہ بھی نہ تھا سوائے اپنے آٹھ ہزار روبل کے، اور یہ کہ چاقو اس کا نہیں ہے۔ مگر اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی، اس کا چہرا پیلا پڑ گیا تھا، اور وہ خوف سے اس بری طرح کانپ رہا تھا جیسے کہ وہ گنہگار ہو
۔ اس پولیس آفیسر نے دوسرے چھوٹے آفیسروں کو یہ حکم دیا کہ وہ اکسیونوف کو باندھ کر گاڑی میں بٹھائیں۔ جیسے ہی ان لوگوں نے اکسیونوف کو گاڑی میں باندھ کر رکھا ، اس کے آنسوگرنے لگے۔ اس سے اس کا سارا سامان اور پیسہ ضبط کر لیا گیا اور اسے پاس کے شہر کی جیل بھیج دیا گیا۔ اس کی ساری جانچ پڑتال ولاڈیمر میں ہی ہوئی تھی۔ جانچ کے دوران دوسرے سوداگروں نے یہ بتایا کہ وہ خالی وقت میں شراب پیتا تھا مگر پھر بھی وہ ایک اچھا آدمی تھا۔لیکن تمام شواہد کی روشنی میں عدالت نے اس پر یہ جرم پکا کردیا کہ اس نے ریازن کے ایک سوداگر کا قتل کیا اور اس کے بیس ہزار روبل لوٹ لیئے۔ اس کی بیوی دکھی ہو گئی اور اس کو با لکل سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس پر یقین کرے۔ اس کے بچے کافی چھوٹے تھے، ایک تو ابھی ماں کے دودھ پر ہی بڑھ رہا تھا۔ ان سب کو اپنے ساتھ لے کر اس کی بیوی اس جیل میں گئی جہاں اکسیونوف قیدی تھا۔ پہلے اسے ملنے کی اجازت نہیں ملی مگر بہت گڑگڑانے کے بعد اسے اجازت مل گئی ۔ اس کی نظریں جب اپنے شوہر پر پڑیں ، جو کہ ہتکڑی میں قید چور اچکوں کے ساتھ کھڑا تھا ، وہ وہیں زمین پر گر گئی اور کافی دیر تک ہوش میں نہ آسکی۔ پھر اس نے اپنے بچوں کو اپنی طرف کھینچا اور اس کے پاس ہوکر بیٹھ گئی۔ اس نے اسے گھر کے بارے میں بتایا اور پھر اس سے ان سب حالات کی وجہ پوچھنے لگی۔اس نے سب بتا دیا۔ اس کے بعد وہ بولی۔
“اب ہم کیا کر سکتے ہیں؟”
“ہمیں زار کے پاس جانا پڑے گا اور ان کے سامنے ایک معصوم آدمی کی زندگی بچانے کی عرضی پیش کرنی پڑیگی”
اس کی بیوی نے اسے بتایا کہ اس نے زار کے سامنے عرضی پیش کردی تھی مگر وہ قبول نہیں کی گئی۔ اکسیونوف نے بنا کچھ کہے ، اپنی آنکھیں مایوسی سے زمین میں گاڑ لیں۔
“وہ سب کچھ بالکل غلط نہیں تھا جو میں نے تمہارے بارے میں خواب میں دیکھا تھا۔ تمیں یا د ہے؟ تمہیں اس دن باہر نہیں نکلنا چاہیئے تھا۔ “اپنی انگلیاں اس کے بالوں میں سے نکالتے ہوئے اس کی بیوی نے کہا۔ “وانیا میرے پیارے، مجھے سچ بتائو، کیا وہ تم نہیں تھے جس نے یہ سب کیا ہے؟”
“تو اب تم بھی مجھ پر شک کر رہی ہو”اکسیونوف نے کہا اور اپنا چہرا اپنے ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگا۔ تبھی ایک سنتری آیا اور کہنے لگا کہ اب تمہارے بیوی بچوں کو جانا ہوگا، اور اکسیونوف نے آخری بار اپنے بیوی بچوں کو الوداع کر دیا۔
جب سب جا چکے تو اپنے آپ کو اکیلا پا کر اکسیونوف نے اپنی بیوی کا خواب اور اس پر شک کر نا ۔۔۔جاری ہے ۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2018