شجر کاری
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ شجر کاری۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )جب سے موسم گرما شروع ہوا ہے سوشل میڈیا پر چند پوسٹس بہت وائرل ہو رہی ہیں۔ جن میں سے ایک انڈونیشیا اور انڈیا میں پودے لگانے والے لوگوں کی ہے۔اور ان لوگوں کی مثال دے کر پاکستانیوں کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ بھی درخت لگائیں تاکہ ماحول ٹھیک رہے۔مانا کہ جنگلات کے کئی فوائد ہیں جن میں سب سے بڑا فائدہ ماحول کا اچھا ہونا ہے لیکن کچھ فیکٹس ذہن میں رکھنے چاہیے۔پہلی بات تو یہ کہ جو جنگلات پہلے سے موجود ہیں ان کی حفاظت کی جائے انہیں کاٹا نہ جائے اور ایسا انتظام کیا جائے کہ ان میں آگ نہ بھڑکے۔اور فرض کریں بھڑک ہی اٹھے تو اسے فورا بجھا کر اردگرد کے علاقے اور فضا کو آلودگی سے بچایا جا سکے۔
دوسری بات یہ کہ جب بھی شجر کاری کی جاتی ہے تو موسم کے لحاظ سے پودے لگائے جاتے ہیں۔ہر موسم شجرکاری کا نہیں ہوتا۔پودا لگانے کے بعد اسے پانی دینا، گوڈی کرنا اس کی چھانٹی کرنا اور حفاظت کرنا بھی ضروری ہے۔ ورنہ پودا بڑھنے کی بجائے مرجھا جاتا ہے۔کوئٹہ میں کمشنر اسلام آباد سے آئے ہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ یہاں بھی سڑکوں کے کنارے گرین بیلٹ بنا دیں۔مگر وہ بھول گئے کہ یہاں کی فضا اور موسم اور اسلام آباد کے موسم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اگرچہ انہوں نے محکمہ زراعت کی مشاورت سے پودے لگائے مگر پانی نہ ملنے کی وجہ سے پودے سوکھ گئے۔جس پر انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ اپنے گھروں کے سامنے لگے پودوں کی دیکھ بھال کریں۔انہیں پانی دیں۔
بھولے کمشنر صاحب کو پتہ ہی نہیں کہ کوئٹہ ایک خشک اور گرم علاقہ ہے یہاں زیر زمین پانی کی سطح تقریبا 1200 فیٹ ہے۔لہذا کنوئیں اور ٹیوب ویل بھی کم ہی کام کرتے ہیں۔واسا سارے پاکستان کی طرح یہاں بھی کم ہی پانی سپلائی کرتا ہے اگرچہ بلز بڑی باقاعدگی سے اور تھوک کے بھاو بھیجتا ہے۔چنانچہ سارا سال لوگ 2200 سے 3000 تک کا واٹر ٹینکر ڈلوا کر گھر کا نظام چلاتے ہیں۔اور گرمی میں ٹینکر والے کے نخرے اتنے ہوتے ہیں کہ دو تین دن پہلے بکنگ کروانی پڑتی ہے تب جا کر پانی نصیب ہوتا ہے۔ ایسے میں لوگ پودوں کو پانی دیں یا اپنی ضرورت پوری کریں۔ ہمارے اپنے گھر میں سیب، بادام، انار، چیری، خوبانی، آلو بخارا، کینو، لیموں، انجیر کے کئی درخت، انگور کی بیلیں ، کریپرز، بے شمار پھول اور سبزیاں ہیں مگر پانی نہ ہونے کی وجہ سے اب نہ تو کوئی پھل لگتا ہے نہ سبزیاں اور پھول۔
اور بارش یہاں ویسے ہی کم کم ہوتی ہے کیونکہ یہ علاقہ مون سون کی پٹی میں نہیں آتا۔میں نے کمشنر صاحب مشورہ دیا تھا کہ اسلام آباد کی طرح نالے کے پانی کو ٹینکر میں بھر کر شاور کے ذریعے ان پودوں کو پانی دیا جائے مگر شاید انہوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اس تجویز کو پڑھا نہیں۔
یہی حال پورے پاکستان کا ہے تقریبا ہر شہر میں پانی کی قلت ہے اب یہ قدرتی ہے یا مصنوعی، تاکہ ٹینکر مافیا پانی بیچ سکے کیونکہ انہیں پانی مل جاتا ہے مگر ہمیں نہیں، مگر مسئلہ تو ہے۔جن علاقوں میں بارشیں ہوتی ہیں وہاں تو شجر کاری کا فائدہ ہے مگر کوئٹہ جیسے علاقوں میں اس کا کوئی امکان نہیں کہ پودے درخت بن سکیں۔لہذا پہلے پانی کا مسئلہ حل کیجئے پھر شجر کاری کیجئے۔انڈونیشیا، انڈیا اور دیگر ممالک میں نہ پانی کا مسئلہ ہے نہ وہاں جنگلات میں آگ لگائی جاتی ہے نہ ہی انہیں کاٹا جاتا ہے۔اس لیے ان سب پہلوؤں پر بھی غور فرمائیے۔صرف پودے بو کر بھول نہ جائیے کہ ہمارا فرض پورا ہوا۔