ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )قرآ ن مجید ہدایت اور کائنات کے تسخیری فارمولوں کی دستاویز ہے، یہ دنیا کی واحد الہامی کتاب ہے جو زندگی کے تمام تقاضوں اور مراحل کا انکشاف کرتی ہے، سائنس اپنا سارا زور ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد ہونے کی پر لگا رہی ہے لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پارہی، جبکہ قرآن مجید کی سورہ نمل میں الہامی طرزوں کے ساتھ ٹائم اینڈ اسپیس کو ختم کرنے کا فارمولا بیان کیا گیا ہے
قَالَ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَیُّكُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ(38)
سلیمان نے فرمایا اے درباریو تم میں کون ہے کہ وہ اُس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہوکر حاضر ہوں
قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَۚ-وَ اِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ(39)
ایک بڑا عفریت جو جِنّ والا تھا بولا کہ وہ تخت حضور میں حاضر کردوں گا قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بےشک اس پر قوت والا امانت دار ہوں
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(40)
اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اُسے حضور میں حاضر کردوں گا ایک پل مارنے سے پہلے پھر جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا دیکھا کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بے پرواہ ہے۔
قرآن کی ان آیات کے اندر تفکر کرنے سے مادے کے اندر تصرف کرنے اور زمان ومکان سے آزاد ہونے کے اسرار و رموز منکشف ہوتے ہیں، سائنس کی رو سے مادے کی مختلف حالتیں دریافت کی جا چکی ہے
ٹھوس
مائع
گیس
پلازمہ
روشنی
ایتھر
جیسے جیسے مادے کو توڑنے جائیں مادے کی کثافت لطیف ہوکر رنگوں، روشنی اور لہروں میں تبدیل ہو جاتی ہے لہروں کا نظام کہاں سے جاری وساری ہے ابھی تک مادی سائنس اس کا ادراک نہیں کرسکی، روحانی سائنسدان لہروں کے بعد مادے کی درج ذیل حالتوں کا انکشاف کرتے ہیں
روشنی کی لہریں
نور کی لہریں
تجلّی کی لہریں
انا یا ذات کی لہریں
انا کی لہروں کا انکشاف عظیم روحانی سائنسدان حضور بابا تاج الدین ناگپوری رحمتہ اللہ علیہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں
“سائنسدان روشنی کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں کہ زمانی مکانی فاصلوں کو منقطع کر سکے البتہ انا کی لہریں لاتنہایئت میں بیک وقت ہرجگہ موجود ہیں اور زمانی مکانی فاصلے ان کی گرفت میں رہتے ہیں”
قرآن مجید کی آیات اور حضور بابا تاج الدین ناگپوری رحمتہ اللہ علیہ کے فرمان میں تفکر کرنے سے انکشاف ہوتا ہے کہ اگر کوئی بندہ اپنے اندر موجود انا کی لہروں سے واقفیت حاصل کر لے تو وہ نہ صرف مادے کے اندر تصرف کرکے اس کی حالتوں کو تبدیل کر سکتا ہے بلکہ ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد ہو کر کائناتی فاصلوں کو منقطع بھی کر سکتا ہے ، انا کی لہروں کا علم قرآن کریم کی روشنی میں علم الکتاب کہلاتا ہے، کتاب سے مراد ہی زمان ومکان ہیں
دنیا کی کوئی بھی کتاب ہو ہمیشہ ایک ہی اصول پر لکھی جاتی ہے ، ایک الفاظ کا دوسرے الفاظ کے درمیان فاصلہ ضرور ہوتا ہے روحانی نقطہ نظر سے الفاظ کو مکان اور انکے درمیان فاصلے کو زمان کہتے ہیں اگر الفاظ یا مکان کے درمیان زمان یا فاصلہ نہ ہو تو کچھ سمجھ میں نہیں آسکتا نہ ہی کوئی علم یا فہم پیدا ہو سکتا ہے، بلکل اسی طرح کائنات کے تمام اجسام سورج، چاند، ستارے، نباتات، جمادات اور حیوانات سب مکان ہیں اور انکے درمیان خلاء فاصلہ زمان ہے کائنات کے اندر یہ زمان ومکان مل کر کتاب کہلاتا ہے، اسی کتاب کائناتی زمان ومکان کا علم انبیاء کرام اور اولیاء اللہ کے کو عطاء کیا جاتا ہے، زمان ومکان یا کتاب کا علم انا کی لہریں سے واقفیت ہے، انا کی لہروں سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے ہمیں قرآن مجید کے اندر تفکر یا مراقبہ کرنا پڑے گا، مراقبہ انبیاء کرام کی سنت ہے جو بندے کو اللہ سے متعارف کراتی ہے