Daily Roshni News

معاشرتی جیل خانہ

معاشرتی جیل خانہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل) ہم سب تھرڈ کلاس نقال اور گھٹیا ترین قسم کے بھانڈ ہیں۔ ہمارے مکالمے کوئی اور لکھتا ہے، میک اپ کوئی اور کرتا ہے، ہدایات کوئی اور دیتا ہے، ہم یہ عارضی کردار مستقل بنیادوں پر ادا کیئے چلے جا رہے ہیں اور ہمیں اس ”فن” کی تربیت ماں کی گود سے ملنا شروع ہو جاتا ہے۔

٭ ویسے تو ہر خلق ہی ادا کار ہے، تمام جمادات، نباتات و حیوانات کے اس ڈرامے میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہے ہیں، تاہم انسان اور دیگر مخلوقات میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ دیگر مخلوقات اپنا اپنا سکرپٹ لیکر پیدا ہوتی ہیں،

قدرت میں انکا پروگرام انکی پیدائش سے قبل ہی ان میں انسٹال کردیتی ہے، انہیں انتخاب کردار کا کوئی اختیار نہیں، بلی کا بچہ کتیا کا دودھ پینے کے با وجود میاؤں میاؤں ہی کرتا ہے، بھونکتا نہیں۔

٭ جبکہ انسان کو اپنا سکرپٹ خود لکھنے کا اختیار ہے، اپنا کردار خود منتخب کرنے کی سہولت ہے، قدرت اس کا پروگرام یا سافٹ ویئر اوپن فائل کی شکل میں انسٹال نہیں کرتی بلکہ ایک بند فائل کی شکل میں و دیعت کرتی ہے، یہ فائل اس نے خود کھولنی ہوتی ہے، اپنا یہ پروگرام یا سوفٹ ویئر اس نے خود انسٹال/ڈاؤنڈلوڈ کرنا ہوتا ہے۔

قرآن میں ہے:

٭ لوگو تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس روشن دلیل آچکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف چمکتا ہوا نور بھیج دیا ہے۔ (النساء:174)

٭ لوگو تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا۔ اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت آپہنچی ہے۔ (یونس:57)

٭ کہہ دو کہ لوگو تمہارے پروردگار کے ہاں سے تمہارے پاس حق آچکا ہے تو جو کوئی

ہدایت حاصل کرتا ہے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے۔ (یونس:108)

٭ جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق فیصلے نہ کرے وہ پکے کافر ہیں۔ (المائدہ:44)

٭ اور کہہ دیجیئے کہ یہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔ (الکھف:29)

چونکہ یہ قدرت کا اہم ترین پروگرام ہے، کائنات کا ”مہنگا ترین” سافٹ ویئر ہے۔ اس لیے اس کی ترسیل کا بھی خصوصی اہتمام کیا گیا ہے، اہمیت کے پیش نظر اسکی حفاظت کا خصوصی انتظام کیا گیا ہے کہ جیسے ہم قیمتی چیزوں کو چھپا کر یا نازک چیزوں کو مضبوط ڈبوں میں ڈال کر بھیجتے ہیں۔ یہ پروگرام قیمتی بھی ہے اور نازک بھی، اسلئے قدرت نے اس کی ترسیل اور حفاظت کا بھرپور بندوبست کیا ہے، اس بندوبست کا ایک مقصد اسے غلط ہاتھ لگنے سے بچانا بھی ہے۔ کہ جیسے بچے کو چاقو اور پاگل کو بندوق نہیں تھمائی جاسکتی کہ وہ کسی کو مار یا خود کو زخمی کر سکتے ہیں۔ یہ پروگرام انسٹال کرنے کے بعد انسان زندگی میں اپنا کردار خود منتخب کر سکتا ہے اپنا سکرپٹ کود لکھ سکتا ہے۔

٭ یہ پروگرام انسٹال کرنے سے قبل اسکا دماغ کورے کاغز یا بلینک ڈسک کی طرح ہوتا ہے۔ اگر اس نے اپنا پروگرام خود انسٹال نہ کیا تو کورے کاغز یا بلینک ڈسک چلتا پھرتا دعوت نامہ بن جاتا ہے، اس پر کوئی بھی کچھ بھی لکھ سکتا ہے۔ انسٹال کر سکتا ہے۔ پھر ہمارے کردار کوئی اور منتخب کرتا ہے، ہمارا سکرپٹ کوئی اور تحریر کرتا ہے۔ ماحول ہمارا سب سے پہلا پروگرامر ہوتا ہے اسی لیے انسان کا بچہ گوریلوں میں پرورش پا کر گوریلے جیسا بن جاتا ہے۔ بھیڑ (Crowed) میں رہ کر بھیڑ (sheep) ہو جاتا ہے۔

مائنڈ کنٹرول موثر ترین ہتھیار

—————————-

٭ انسان کو انتخاب کردار کی خصوصیت کی بنا پر اشرف المخلوقات کی شہرت ملی، خدائی طاقت نصیب ہوئی لیکن ہزاروں سالوں سے قبل انسان اپنی اس صلاحیت سے محروم کر دیا گیا۔ وہ قدرت کے بہترین اداکار سے دنیا کا گھٹیا ترین نقال اور بھانڈ بن گیا۔ گود سے گور تک کے اس ڈرامے میں ہمارا ہر ایکٹ ری ایکٹ ہے، اسے کوئی اور ڈائریکٹ کرتا ہے، نقالی کی یہ ہزاروں سالہ پرانی عادت اب ہماری جبلت بن چکی ہے۔ ہمارا ڈی۔این۔اے تک کرپٹ ہو چکا ہے۔

٭ اسی لیے عیسٰی ابن مریم نے کہا تھا کہ: “ہر شخص گناہ گار پیدا ہوتا ہے”۔

اور ازلی گناہ یہی ہے۔ ماں کی گود سے ہم نقالی کی ریہر سل شروع کر دیتے ہیں، ہم دو ٹانگو پر اس لیےچل رہے ہیں کہ ہم نے اپنے ماں باپ، بھائی بہن، اور چاچے مامے کو دو ٹانگو پر چلتے دیکھا ہے۔ جو کچھ ہم نے دیکھا وہی کچھ ہم نے کیا۔ جو سنا وہی کیا، ہمارے کردار کا سب کچھ مستعار ہے، کچھ بھی تو اپنا نہیں، آج کل میڈیا بھی تو ڈائریکٹر کا کردار ادا کر رہا ہے، مائنڈ کنٹرول موثر ترین ہتھیار بن چکا ہے۔

٭ تھوڑا بڑا ہونے پر ہمیں اسکول نامی تربیتی جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، وہاں تعلیم کے نام پر سکولوں میں الٹی گنگا بھائی جارہی ہے جیسے ہی ہم شعور کی آنکھ کھولتے ہیں ہمیں سکول نامی تربیتی جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، وہاں تعلیم کے نام پر ہماری تذلیل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ہمارے معصوم سوالو کو بے وقوفی سمجھا جاتا ہے۔ اور بے ضرر سوالوں کو بدتمیزی گردانا جاتا ہے، ہمارے اظہار کے ہر طریقے کو دبا دیا جاتا ہے۔

٭ تعلیم کا مقصد ہی کھود کر باہر نکالنا ہے جیسے کنوئیں سے پانی کھینچنا، یعنی قدرت نے ہمیں جو بند فائل دی ہے، (Intelligence) و دیعت کی ہے، اساتذہ کا کام اسے کھولنے، کھوجنے، کھودنے، باہر نکالنے، ظاہر کرنے، سطح پر لانے میں ہماری مدد و رہنمائی کرنا ہے۔ انسان کو باہر سے کچھ بھی لینے یا سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہر جانور تک بھر پور زندگی گزارنے کے بہترین طریقوں سے آگاہ ہوتا ہے، انسان تو پھر بھی اشرف المخلوقات ہے۔

٭ تعلیم کے نام پر سکولوں میں الٹی گنگا بھائی جا رہی ہے اندر سے (Intelligence) باہر نکالنے کے بجائے، باہر سے (Intelect) کے نام پر کچرا اندر انڈیلا جاتا ہے۔ بچے کے اندر سے پھوٹنے والے چشمے کو روڑے پتھر ڈال کر بند کر دیا جاتا ہے اس کے اندر ٹھاٹھے مارتے ہوئے سمندر کو تالاب میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی تک جاتے جاتے یہ تالاب گندے جو ہڑ کی شکل اختیار کر کے اس کی زندگی متعفن کر دیتا ہے۔

میجر برین واشنگ

——————

٭ پرائمری سکول سے ہی بچے کی میجر برین واشنگ یا پروگرامنگ شروع ہو جاتی ہے، کہا جا سکتا ہے کہ جب بےر کے برین میں کچھ ہے ہی نہیں تو پھر واشنگ کس کی اور کیسے کی جاتی ہے؟ بچے کے پوٹیشنل کو زنگ لگا دیا جاتا ہے، اسکی لامحدود سوچ کو محدود کر دیا جاتا ہے، اسکا قلب و مائنڈ ایک ہوتا ہے، ہم آہنگ ہوتا ہے، ان دونوں کو الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ اسکا دماغ گو فزیکلی لیفٹ اور رائٹ حصوں پر مشتمل ہوتا ہے مگر وہ خود منقسم نہیں ہوتا، اسے بھی لیفٹ اور رائٹ کے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے سارا امتحانی سسٹم رائٹ برین دبانے اور لیفٹ ابھار نے کا موثر ترین ہتھکنڈا ہے، سارا نظام تعلیم مائنڈ کنٹرولنگ پراسس ہے۔

٭ ہمارے دماغ کا دایاں حصہ ہر انفارمیشن کا تجزیہ کرتا ہے جبکہ بایاں حصہ ہر چیز کو قبول کر لتار ہے، اگر انسان اور اسکا دماغ آزاد ہو تو وہ بائیں حصہ میں آنے والی ہر انفارمیشن خود بخود دائیں حصہ میں ڈال کر اسکے مناسب نا مناسب ہونے کا خود فیصلہ کرتا ہے۔ پورا تعلیمی نظام اس دائیں حصہ کو بند کر کے صرف بائیں کو متحرک کرنے میں لگا ہوا ہے۔ طلباء کے سوچنے سمجھنے کے مواقع ختم کئے جا رہے ہیں، انہیں ہر انفارمیشن کمپیوٹر کی طرح فیڈ کی جار ہی ہیں۔امتحانی طریقہ کار اسکا واضح ثبوت ہے، دوسال کا سیکھا ہوا دو گھنٹوں میں لکھنا پڑتا ہے، جو کچھ پڑھا یا گیا ہوتا ہے وہی کچھ بتانا پڑھتا ہے، ساری پڑھائی محض پٹی پڑھائی ہے۔ سکولوں میں صرف پٹیاں پڑھائی جاتی ہیں، بچے کی اپنی قدرتی فائل تالے لگا کر داخل دفتر کر دی جاتی اور اس میں معاشرتی ضرورتوں کے پروگرام انسٹال کر دیئے جاتے ہیں۔ پاور سٹر کچر کے تصورات کو حقیقت بنا کر معصوم ذہنوں پہ مسلط کر دیا جاتا ہے۔ یہ تعلیمی نظام بچوں کی صلاحیتیں نکھارنے کے بجائے دبانے کا مرتکب ہو رہا ہے۔

٭ اسی لیے آئن سٹائن کو بھی کہنا پڑا:

”The only thing that interferes with my learning is my education”۔

واحد چیز جو میرے سیکھنے میں رکاوٹ بنی وہ مجھے دی جانے والی تعلیم تھی۔

یہ ایجوکیشن پٹی پڑھانا ہے، سیکھانا نہیں، سکولوں سے طوطے بن کر نکلنے والے یونیورسٹی سے کھوتے بن کر نکلتے ہیں، انکا سر خالی اور کمر کتابوں سے لدی ہوتی ہے۔ جرمن فلاسفر (Fichte) کی اس تجویز میں اعتراف بھی موجود ہے:

”eduction should aim at destroying free will, so that, after pupils have left school, they shall be incapable, throughout the rest of their lives, of thinking or acring otherwise than as their schoolmaster would have wished”۔

تعلیم کا مقصد انسان کی خود مختاری کو ختم کرنا ہے، تاکہ جب آدمی سکول مکمل کر کے باہر نکلے تو تا حیات اپنے استاد کی بتائی ہوئی باتوں کے علاوہ کچھ اور سوچنے کا اہل نہ رہے۔

Loading