گھبرابا، شرمانا، کترانا!
کامیابیوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ گھبرابا، شرمانا، کترانا! کامیابیوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ)کبھی شدت سے دل چاہتا ہے کہ کچھ وقت صرف کے اپنے ساتھ گزارا جائے۔ ارد گرد کوئی موجود ہو ، نہ کسی قسم کا شور ہو بس اک سناٹا سا ہو اور سکون ہو۔ ایسا تب زیادہ ہوتا ہے جب روٹین مصروف ترین اور مدت سے زندگی میں کوئی تبدیلی نہ آئی ہو، یہ کیفیت عموماً کچھ دیر کے لیے ہوتی ہے اور پھر آدمی دوبارہ سے زندگی کی گہما گمیوں میں خم ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس کیفیت میں تھوڑی دیر کے لیے نہیں بلکہ مسلسل رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اکیلے بیٹھنا پسند کرتے ہیں، لوگوں سے بہت کم کھلتے ملتے ہیں۔ اگر کسی تقریب یا محفل میں چلے جائیں تو وہاں بھی انہیں ایسی جگہ کی تلاش ہوتی ہے جہاں وہ اکیلے بیٹھ سکیں۔
نفسیاتی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اس مسئلہ کال پس منظر کافی پرانا ہوتا ہے۔ بچپن میں کچھ لوگ بعض تکلیف دہ حالات سے گزرے ہوتے ہیں جس کے اثرات ان کی زندگی پر بھی پڑتے رہتے ہیں۔
دوران تعلیم کچھ لڑکیاں یا لڑکے جب Presentation دینے کے لیے اپنے کلاس فیلوز یا اساتذہ کا سامنا کرتے ہیں، وہ کانپ رہے ہوتے ہیں یا پینے سے شرابور ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ عملی زندگی میں لوگوں کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ لوگ اس بات سے بھی گھبراتے ہیں کہ اگر سامنے والے شخص نے کوئی سوال کر لیا تو انہیں اس کا جواب کیسے، کیوں اور کس انداز میں دینا ہے۔ سوالات سے بچنے کے لیے وہ لوگوں سے کترانا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ مشاہدہ بھی کیا گیا ہے کہ دوران گفتگو ان کے ہاتھوں میں اکثر کپکپاہٹ ہوتی ہے، لوگوں سے نظریں ملانے کا انداز بھی مختلف ہوتا ہے۔ ان میں خوف پایا جاتا ہے۔ یہ خوف بچپن کے کسی واقعے کے باعث بھی ہو سکتا ہے۔
کئی گھروں میں ماں باپ بچوں کو ڈرانے، دھمکانے کی غرض سے خوفناک کہانیاں یا کسی کردار سے ڈرانے کا سہارا لیتے ہیں۔ کمرے میں اندھیرا کر کے کچھ دیر بند رکھنا، بات بات پر ڈانٹنا، ٹوکنا، سخت رویہ اختیار کرنا، کچھ کچھ بتانا چاہ رہا ہو تو اسے بری طرح سے جھڑک دینا۔ یہ سب کچھ بچے کے ذہن میں رہتا ہے جوں جوں بچہ بڑھتا ہے یہ خوف اس کے ساتھ پہنچنے لگتے ہیں۔
جب ایسے بچے نو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو ان میں خوف اور احساس کمتری موجود ہوتا ہے۔ وہ ان واقعات کے ساتھ زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہیں اور یوں اپنی ایک علیحدہ ہی دنیا بنا لیتے ہیں جہاں انہیں روکنے ٹوکنے والا، ان کی بات کو مسترد کرنے والا نہیں ہوتا۔ جب انہیں لوگوں کا سامنا کرنا پڑے تو انہیں اندر سے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ ضرور کوئی ان پر جنسے گا، ان کی بات کو رد کرے گا، یا سب کی نگاہ ان پر ہے۔ اس خوف کی وجہ سے یہ افراد لوگوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی لوگ اعتماد کی کمی، ارد گرد کے ماحول، خوف یا عدم تحفظ کے باعث اس طرح کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ ورنہ ان میں صلاحیتوں اور قابلیت کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔
ایسے افراد یہ سوچتے ضرور ہیں کہ وہ بھی عام لوگوں کی طرح انجوائے کریں لیکن جھجھک کے باعث وہ لوگوں کے ساتھ گھل مل نہیں پاتے۔
یہ دوستی کے لیے بھی ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو کم گو ہوں ۔ ان لوگوں میں وہ تمام صلاحیتیں اور خوبیاں موجود ہوتی ہیں جو دیگر افراد میں ہوتی ہیں۔ ایسے افراد اگر خود کو تبدیل کرنے کی ٹھان لیں تو وہ بھی نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس کے لیے کوشش کرنا ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
شرمیلے اور گھبرانے والے افراد درج ذیل باتوں کو اپنائیں تو کافی حد تک خود کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ لوگوں سے زیادہ رابطہ رکھنا خود اعتمادی کے لیے بنیادی شرط یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ساتھ روابط بڑھائے جائیں۔ لوگوں سے بات چیت کی جائے۔ زندگی ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنے کا نام ہے اس لیے لوگوں کو دوست بنانا ان سے ہر موضوع پر ڈسکشن کرنا، بحث و مباحثہ کرنا، باتیں کرنا ہر روز کچھ نیا سیکھنے اور خود کو بہت پر اعتماد بنانے میں بہت معاون ہے۔
مطالعہ کی عادت
شخصیت کو پُر اعتماد بنانے کے لیے مطالعے کی عادت بہت مفید ہے۔ مطالعے کی عادت اپنا لینے والے افراد خود میں حیرت انگیز تبدیلی محسوس کرتے ہیں۔ کتا ہیں انسان کو معلومات فراہم کرتی ہیں۔ یہ بہترین دوست بھی ہوتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تنہائی میں یا اس وقت جب ذہن بری باتوں، تلخیوں، کوتاہیوں کو یاد کرنے لگے ایسے میں کتب بینی کرنے سے ذہن تازگی محسوس کرتا ہے۔ مطالعہ کرنے والوں کی شخصیت میں اعتماد بڑھتا ہے۔
مشاغل اپنا ئیے
کوئی نہ کوئی مشغلہ ضرور اپنانا چاہیے تاکہ ذہن مطمئن رہنے کے ساتھ ساتھ مثبت کام کی طرف مائل ہو سکے۔ یوں دوسروں سے اپنے شوق اور مشغلے سے متعلق بات چیت کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔
خود پر توجہ دیجیے
جو لوگ خود پر توجہ نہیں دیتے اور اپنی شخصیت کو بہتر بنانے یا سنوارنے کی کوشش نہیں کرتے وہ بھی اظہار کی کمی، عدم اعتمادی اور احساس کمتری میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
سوشلائزیشن میں وقت گزاریے: سماجی میل جول (Socialization) کے ذریعے نئے لوگوں سے بات چیت، انٹرایکشن سے اعتماد کی کمی ختم کرنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ سب سے زیادہ اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ دوست بنائیں اور ان سے ملتے رہیں۔ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اس سے بھر پور فائد واٹھا میں تاکہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکیں۔