1920 کی دہائی کے اوائل میں جرمنی کی سڑکوں پر عجیب و غریب مناظر دیکھنے کو ملتے تھے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )1920 کی دہائی کے اوائل میں جرمنی کی سڑکوں پر عجیب و غریب مناظر دیکھنے کو ملتے تھے۔ لوگ ریڑھیوں اور بوریوں میں نوٹ بھر کر بازار جاتے تھے، لیکن یہ نوٹ اتنے بے وقعت ہو چکے تھے کہ ایک روٹی یا ایک کپ کافی خریدنے کے لیے لاکھوں مارک درکار ہوتے تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نوٹ گننے کی بجائے ان کا وزن کیا جاتا تھا۔ یہی حال تھا جرمنی کی بدترین معاشی بدحالی کا، جسے “Hyperinflation” کا دور کہا جاتا ہے۔
اسی دور میں ایک جرمن عورت کا واقعہ مشہور ہے جو اپنے گھر کی سردی کو دور کرنے کے لیے چولہے میں ڈھیر سارے کرنسی نوٹ جلا رہی تھی۔ یہ منظر ایک مکمل داستان سنا رہا تھا—ایک ایسا ملک جس کی کرنسی اتنی بے قیمت ہو چکی تھی کہ کاغذ کے نوٹ جلانا لکڑی جلانے سے زیادہ سستا پڑتا تھا۔ یہ صورتحال اس قدر سنگین تھی کہ لوگوں کے پاس نہ صرف روٹی کے لیے پیسے ختم ہو رہے تھے، بلکہ انہیں گرم رہنے کے لیے اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے کاغذی پیسے جلا کر گزارہ کرنا پڑ رہا تھا۔
تصور کریں، آج کے دور میں اگر ہمیں اپنی جمع پونجی جلانے پر مجبور ہونا پڑے تو یہ کتنا ناقابلِ یقین ہوگا؟ لیکن جرمن عوام کے لیے یہ حقیقت تھی۔ دنوں میں قیمتیں کئی گنا بڑھ جاتی تھیں، اور جو پیسہ آج کافی تھا، وہ اگلے دن تک کسی کام کا نہ رہتا۔
یہ وہ وقت تھا جب جرمنی پہلی جنگ عظیم کے نقصانات کا سامنا کر رہا تھا۔ جنگ کی بدولت نہ صرف ملک کی معیشت تباہ ہوئی بلکہ اتحادی طاقتوں نے جرمنی پر بھاری تاوان بھی عائد کیا تھا، جس کی ادائیگی کے لیے جرمن حکومت مسلسل نوٹ چھاپ رہی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کرنسی کی قدر دن بدن گھٹتی گئی اور اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔
یہ کہانی جرمنی کے اس زمانے کی ہے جب لوگوں نے اپنی محنت کی کمائی کا کوئی مول نہ دیکھا اور انہیں ایسے حالات میں جینا پڑا جہاں پیسے کا کاغذ کی طرح کوئی مصرف نہ رہا۔