مجالس نبویﷺ
تحریر۔۔۔علامہ شبلی نعمانی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوزانٹرنیشنل ۔۔۔ مجالس نبویﷺ۔۔۔ تحریر۔۔۔علامہ شبلی نعمانی) دربار نبوت: حضور پاک میم کی مجلس میں لوگ بیٹھتے تو یہ معلوم ہوتا کہ ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں، یعنی کوئی شخص ذرا بھی جنبش نہیں کرتا تھا۔ کوئی شخص بولتا تو جب تک وہ اوہی بات پوری نہ کرلے کوئی دوسرا شخص بولتا نہیں تھا۔ بعض اعرابی عرض مدعا میں دیہاتی انداز سے بات کرتے تو آپ می بینیم کمال علم کے ساتھ برداشت فرماتے۔ آپ ایم کسی کی بات کاٹ کر گفتگو نہ فرماتے۔ جو بات نا پسند ہوتی اس سے تغافل فرماتے اور ٹال جاتے۔۔ مجلس میں جس قسم کا ذکر چھڑ جاتا۔ آپ مان بھی اس میں شامل ہو جاتے۔ جنسی اور مہذب ظرافت میں بھی شریک ہوتے، کبھی کسی قبیلہ کا کوئی معزز شخص آجاتا، تو حسب مرتبہ اس کی تعظیم فرماتے۔ مزاج پرسی کے ساتھ ہر شخص سے دریافت فرماتے کہ کوئی ضرورت اور حاجت تو نہیں ہے؟ یہ بھی فرماتے کہ جو لوگ اپنے مطالب مجھ تک نہیں پہنچا سکتے مجھ کو ان کے حالات اور ضروریات کی خبر دو۔ جب کوئی شخص اچھی بات کہتا تو آپ امام حسین فرماتے اور نامناسب گفتگو کرتا تو اس کو مطلع فرمادیتے۔ [ ترمذی]
مجالس ارشاد: حضور پاک ما ای ایم کی تعلیم و تلقین کا فیض اگرچہ سفر، حضر، جلوت، خلوت، نشست و برخاست غرض ہر وقت جاری رہتا تھا۔ تاہم اس سے وہی لوگ مستفیض ہو سکتے تھے جو اتفاق سے موقع پر ہوتے تھے ، اس بناء پر آپ ملٹی بی ایم نے تعلیم و ارشاد کے لیے بعض اوقات مخصوص کر دیے تھے کہ لوگ پہلے سے مطلع رہیں اور ان مجالس میں آسکیں۔ یہ محبتیں عموما مسجد نبوی میں منعقد ہوتی تھیں۔ مسجد نبوی میں ایک چھوٹا سا صحن تھا، کبھی آپ میں نبی کریم ﷺوہاں نشست فرماتے۔ ابتداء رسول اللہ سی ایم کی نشست کے لیے کوئی ممتاز جگہ نہ تھی، باہر سے اجنبی لوگ آتے تو آپ کے پہچاننے میں دقت ہوتی۔ صحابہ نے ایک چھوٹا سا مٹی کا چہو تر و بنا دیا۔ آپ مسی می کنیم اس پر تشریف رکھتے ، باقی دونوں طرف صحابہ حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے۔ [سنن ابو داؤد ]
آداب مجلس: ان مجالس میں آنے والوں کے لیے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ عموماً بدو اپنے ہی طریقوں سے آتے اور بے باکانہ سوال و جواب کرتے۔ خلق نبوی سلیم کا منظر ان مجالس میں زیادہ حیرت انگیز بن جاتا ہے۔ آپ میں کار کنم پیغمبر خاتم کی حیثیت سے رونق افروز ہیں صحابہ عقیدت کیش غلاموں کی طرح خدمت اقدس میں حاضر ہیں۔ ایک شخص آتا ہے اور اس کو رسول پاک مٹی ایم میں اور حاشیہ نشینوں میں کوئی ظاہری امتیاز نظر نہیں آتا۔ لوگوں سے پوچھتا ہے : محمد یم) کون ہے….؟ صحابہ بتاتے ہیں ۔ وہ کہتا ہے : اے ابن عبدالمطلب میں تم سے نہایت سختی سے سوال کروں گا خفا نہ ہونا۔ آپ مینیم بخوشی سوال کی اجازت دیتے ہیں۔(بخاری)
بعض اوقات آپ نمیشینم گفتگو فرمار ہے ہوتے، کوئی صحرانشین ہر وجو آداب مجلس سے ناواقف ہوتا، دفتا آجاتا اور مین سلسلہ تقریر میں کوئی بات پوچھ بیٹھتا، آپ مٹی ایم سلسلہ تقریر قائم رکھتے اور فارغ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوتے اور جواب دیتے۔
ایک مرتبہ آپ می کنیم تقریر فرمارہے تھے ، ایک بدو آیا اور آنے کے ساتھ اس نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی….؟ آپ میم تقریر کرتے رہے، آپ مین بار نیم گفتگو سے فارغ ہو چکے تو دریافت فرمایا کہ پوچھنے والا کہاں ہے….؟ بدو نے کہا: میں یہ حاضر ہوں۔ آپ میم نے فرمایا: جب لوگ امانت کو ضائع کرنے لگیں گے۔ بدو نے کہا: امانت کیوں ضائع ہو گی۔ رسول پاک ٹیم نے فرمایا: جب نا اہلوں کے ہاتھ میں کام آئے گا۔ [بخاری]
اوقات مجلس: اس قسم کی مجالس کے لیے جو خاص وقت مقرر تھا وہ صبح کا تھا۔ نماز فجر کے بعد آپ می کنم بیٹھ جاتے اور فیوض روحانی کا سرچشمہ جاری ہو جاتا۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نماز کے بعد آپ میل کا پانی ٹھہر جاتے اور مجلس قائم ہو جاتی۔ صبح کی مجلسوں میں کبھی کبھی آپ می کنیم وعظ فرماتے ، ترمذی اور ابو داؤد میں عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی یا ہم نے ایک دن صبح کی نماز کے بعد ایک بلیغ وعظ کیا، جس سے آنکھیں اشک ریز ہو گئیں اور دل کانپ اٹھے۔[ترندی] نماز کے بعد جو مجلس منعقد ہوتی اس میں وعظ و نصیحت اور اس قسم کی جزئی باتوں پر گفتگو ہوتی تھی۔ لیکن ان اوقات کے علاوہ آپ مٹی یا نیم خاص طور پر حقائق و معارف کے اظہار کے لیے مجالس منعقد فرماتے تھے۔ چونکہ افادہ عام ہوتا تھا اس لیے آپ می کنیم چاہتے تھے کہ کوئی شخص فیض سے محروم نہ رہنے پائے۔ ایک مرتبہ آپ میری نیم صحابہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ تین شخص آئے۔
محقق، سیرت نگار، پروفیسر ۔۔علامہ شبلی نعمانی 1857–1914 ء |
علامہ شبلی نعمانی کا شمار مشہور و معروف اکابر علماء میں شبلی نعمانی متعدد کتابوں کے مصنف ہونے کے کمنٹین ،اعظم گڑھ کالج کے بانی بھی تھے ، نیز علی گڑھ کالج اور دار العلوم ندوقا اعلماء کے خدمت گزار اورعلی گڑھ کالج میں پروفیسر بھی تھے۔
کتاب “سیرت النبی ملی نیم شبلی نعمانی اور سلیمان ندوی کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے۔ یہ کتاب چھ جلدوں پر مشتمل ہے، جس کی پہلی دو جلدیں شبلی نعمانی نے تحریر کی تھیں کہ ان کا پیمانہ عمر لبریز ہو گیا، شبلی کی وفات کے بعد چار جلدیں سید سلیمان ندوی نے تالیف کیں۔ شبلی کی دیگر تصانیف میں شعرا نجم ، المامون، الفاروق مشہور ہیں۔
ایک صاحب نے حلقہ میں تھوڑی سی جگہ خالی پائی وہیں بیٹھ گئے، دوسرے صاحب کو درمیان میں موقع نہیں ملا، اس لیے سب کے پیچھے بیٹھے۔ لیکن تیسرے صاحب واپس چلے گئے۔ رسول پاک مٹی یادی کنیم جب فارغ ہوئے تو فرمایا: ان میں سے ایک نے خدا کی طرف پناہ لی۔ خدا نے بھی اس کو پناہ دی، ایک نے حیا کی ، خدا بھی اس سے شرمایا۔ ایک نے خدا سے منہ پھیرا، خدا نے بھی اس سے منہ پھیر لیا۔ [ابن ماجہ ] حضور می کنیم وعظ و نصائح کی مجالس نانہ دے کر منعقد فرماتے تھے۔
بخاری میں ابن مسعودؓ سے روایت ہے۔ حضور پاک منشی نیم لوگوں کو نانہ دے کر نصیحت فرماتے تھے کہ ہم لوگ اکتا نہ جائیں۔ [بخاری] عورتوں کے لیے مخصوص مجالس ان مجالس کا فیض زیادہ تر مردوں تک محدود تھا اور عورتوں کو موقع کم ملتا تھا، اس بناء پر عورتوں نے درخواست کی کہ ہمارے لیے خاص دن مقرر فرمایا جائے۔ رسول اللہ صلی الکریم نے یہ درخواست منظور کی اور ان کے وعظ و ارشادات کے لیے ایک خاص دن
مقرر ہو گیا۔ [بخاری] طريقه ارشاد: کبھی کبھی آپ می کنم خود امتحان کے طور پر حاضرین سے کوئی سوال کرتے اس سے لوگوں کی جودت فکر اور اصابت رائے کا اندازہ ہوتا۔ حضرت عبداللہ بن عمر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ آپ سی ای ایم نے پوچھا: وہ کون سا درخت ہے جس کے پتے جھڑتے نہیں اور جو مسلمانوں سے مشابہت رکھتا ہے۔ لوگوں کا خیال جنگلی در محنتوں کی طرف گیا۔ میرے ذہن میں آیا کہ کھجور کا درخت ہو گا، لیکن میں کمسن تھا اس لیے جرأت نہ کر سکا، بالآخر لوگوں نے عرض کی کہ حضور علی نیم خو دار شاد فرمائیں۔ رسول الله علی کریم نے ارشاد فرمایا: کھجور ! عبد اللہ بن عمر کو تمام عمر حسرت رہی کہ کاش میں جرات کر کے اپنا خیال ظاہر کر دیتا۔ [سنن ابن ماجہ ] ایک روز آپ منی می کنیم مسجد میں تشریف لائے۔ صحابہ کے دو حلقے قائم تھے ، ایک قرآن خوانی اور ذکر و دعا میں مشغول تھا اور دوسرے حلقے میں علمی باتیں ہو رہی تھیں۔ آپ منیم نے فرمایا: دونوں عمل خیر کر رہے ہیں خدا نے مجھ کو معلم بنا کر مبعوث کیا ہے۔ یہ فرما کے آپ میں نام علمی حلقہ میں تشریف فرما ہو گئے۔ [سنن ابن ماجہ ]
مجالس میں شگفتہ مزاجی: باوجود اس کے کہ ان مجالس میں ہدایت، ارشاد، اخلاق اور تزکیہ نفوس کی باتیں ہوتی تھیں اور صحابہ امحضرت علی ایلام کی خدمت میں اس طرح بیٹھتے
تھے کہ کان عَلَى رُؤُوسِهِمُ الطير اتا ہم یہ مجلسیں شگفتہ مزاجی کے اثر سے خالی نہ تھیں۔
ایک دن آپ مار کریم نے ایک مجلس میں بیان فرمایا کہ جنت میں اللہ سے ایک شخص نے کھیتی کرنے کی خواہش کی۔ اللہ نے کہا کیا تمہاری خواہش پوری نہیں ہوئی …. ؟ اس نے کہاں ہاں! لیکن میں چاہتا ہوں کہ فورابوؤں اور ساتھ ہی تیار ہو جائے۔ چنانچہ اس نے بیج ڈالے، فور ادانہ اگا، بڑھا اور کاٹنے کے قابل ہو گیا۔ اس مجلس میں ایک بدو بھی بیٹھا ہوا تھا، اس نے کہا: یہ سعادت صرف قریشی یا انصاری کو نصیب ہو گی جو زراعت پیشہ ہیں، ہم لوگ تو کاشیکار نہیں۔ آپ نیم اس کی بات سن کر ہنس پڑے۔ [بخاری]
فیض صحبت: ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ نے رسول اللہ علیم سے عرض کی کہ ہم جب خدمت اقدس میں حاضر ہوتے ہیں تو دنیا پیچ معلوم ہوتی ہے لیکن جب گھر میں بال بچوں میں بیٹھتے ہیں تو حالت بدل جاتی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: اگر ایک سا حال رہتا تو فرشتے تمہاری زیارت کو آتے۔ [جامع ترمذی]
ایک مرتبہ حضرت حنظلہؓ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ علیم ! میں جب خدمت اقدس میں حاضر ہوتا ہوں اور آپ مینیم جب دوزخ و جنت کا ذکر فرماتے ہیں تو یہ چیزیں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں۔ لیکن بال بچوں میں آکر سب بھول جاتا ہوں۔
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر باہر نکل کر بھی وہی حالت رہتی تو فرشتے تم سے مصافحہ کرتے۔ [جامع ترمندی]
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2022