دنیا میں کچھ لوگ فیصلہ کرتے ہیں کہ بہت ہو گیا
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )دنیا میں کچھ لوگ فیصلہ کرتے ہیں کہ بہت ہو گیا، اب بغیر کوئی نشان چھوڑے اپنی زندگیوں سے ہی غائب ہو جایا جائے۔ وہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر، نوکریاں اور خاندانوں کو چھوڑ ایک نئی زندگی شروع کرنے کہیں نکل جاتے ہیں، اور اکثر کبھی پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔
جاپان میں ان لوگوں کو “جوہاٹسو” کہا جاتا ہے۔ جاپانی زبان میں اس کے معنی عملِ تبخیر یا بخارات بن کر اڑ جانا ہے.
قرضے کا بوجھ، کاروبار تباہ ہونا، کوئی بدنامی، محبت میں ناکامی، وبال جان ازدواجی زندگی جیسے بے شمار محرکات ہیں جن کی وجہ سے ’جوہاٹسو‘ غائب ہو جاتے ہیں.
لوگوں کی ہر ضرورت کسی نہ کسی کا کاروبار بن جاتی ہے. ایسے لوگوں کی مدد کیلئے بھی جاپان میں کمپنیاں بن گئی ہیں. یہ کمپنیاں جو سروس فراہم کرتی ہیں اسے ’نائٹ موونگ‘ کہا جاتا ہے. جو لوگ چوری چھپے غائب ہونا چاہتے ہیں، اپنی موجودہ زندگیوں اور شناخت سے دور جانا چاہتے ہیں، یہ کمپنیاں ان کے نئے خفیہ ٹھکانوں میں ان کے لیے رہنے کا انتظام کرتی ہیں۔
ماہر عمرانیات ہیروکی ناکاموری ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جوہاٹسو پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘جوہاٹسو’ کی اصطلاح سب سے پہلے ایسے لوگوں کے لیے استعمال کی گئی جنھوں نے 60 کی دہائی میں ’لاپتہ‘ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔کچھ لوگوں نے فیصلہ کیا کہ طلاق کی باقاعدہ اور رسمی کارروائی کے بجائے اپنے جیون ساتھی کو اس طرح چھوڑنا زیادہ آسان ہے۔
ناکاموری کہتے ہیں کہ جاپان میں ’بخارات بن جانا‘ بہت آسان ہے۔ یہاں پرائیویسی کا انتہائی تحفظ کیا جاتا ہے: لاپتہ افراد بغیر کسی شور شرابے کے اے ٹی ایم سے آزادانہ طور پر رقم نکال سکتے ہیں، اور ان کے کنبہ کے افراد ان سکیورٹی ویڈیوز تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے جن میں وہ گھر سے بھاگنے کے بعد نظر آ سکتے ہیں۔
’پولیس اس وقت تک مداخلت نہیں کرے گی جب تک کہ کوئی اور وجہ نہ ہو جیسا کہ جرم یا حادثہ۔ خاندان بس یہ کر سکتا ہے کہ کسی نجی جاسوس کو بہت زیادہ رقم دے یا پھر انتظار کرے۔ بس اتنا ہی۔‘‘
نائٹ موونگ سروس چلانے والی ایک کمپنی کی مالک 17 سال قبل خود بھی اسی طرح غائب ہوئی تھیں۔ وہ اپنے شوہر کے جسمانی تشدد سے تنگ آکر نکلی تھیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایک طرح سے میں اب بھی ایک لاپتہ شخص ہوں۔ میرے کئی طرح کے کلائنٹس ہیں۔ ایسے لوگ ہیں جو سنگین گھریلو تشدد یا انا اور ذاتی فائدے کی وجہ سے بھاگتے ہیں۔ میں انھیں جج نہیں کرتی۔ میں کبھی نہیں کہتی کہ آپ کا معاملہ اتنا سنجیدہ نہیں ہے۔ ہر ایک کی انفرادی جدوجہد ہوتی ہے۔‘
آندرے ہارٹمین : بی بی سی ورلڈ سروس
بشُکریہ : اسلم ملک