Daily Roshni News

ہمیں نہیں معلوم۔۔۔

ہمیں نہیں معلوم۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ہم نے تو اپنے بزرگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔  یہ جملہ اکثر لوگ بولتے ہیں، یہ پڑھیں پھر فیصلہ کریں۔

نفسیات دانوں کی ایک ٹیم نے پانچ بندروں کو ایک کمرے میں بند کِیا۔ پھر اس کمرے میں انہوں نے ایک سیڑھی کے اوپر کچھ کیلے رکھ دیے۔ کیلوں کو دیکھ کر جب بھی کوئی بندر سیڑھی پر چڑھنا شروع کرتا، سائنسدان چھت پر لگے ایک شاور کا والو کھول دیتے۔ اس سے باقی بندروں کو کافی تکلیف ہوتی۔ نتیجتاً! اس کے بعد جب بھی کوئی بندر سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش کرتا، دوسرے بندر اسے سیڑھی چڑھنے سے روک دیتے۔ اپنی دانست میں وہ ایسا کر کے پانی کی بوچھاڑ کو بھی روک دیتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد پانی کا والو کمرے سے ہٹا دیا گیا اور اگلا مرحلہ طَے کِیا گیا۔

کچھ دیر بعد اس کمرے کی صورتحال یہ تھی کہ کیلوں کے لالچ کے باوجود، پانی کی بوچھاڑ نہ ہوتے ہوئے بھی، کوئی بھی بندر سیڑھی پر چڑھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ کافی دیر اسی طرح گُزری تو سائنسدانوں نے ان میں سے ایک بندر کو تبدیل کر دیا۔ نئے بندر نے آتے ہی کیلے دیکھ کر سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش کی، لیکن دوسرے بندروں نے اسے مارنا شروع کر دیا۔ کچھہ دیر پٹنے کے بعد اس بندر نے سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش ترک کر دی، یہ جانے بغیر ہی کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔

پھر سائنسدان ایک ایک کر کے بندر تبدیل کرتے گئے، ہر نیا بندر کمرے میں آتے ہی کیلوں کو دیکھ کر سیڑھی چڑھنے کی کوشش کرتا اور دوسرے بندروں سے مار کھاتا۔ پھر مار کھانے کے بعد وہ بھی انہی بندروں کی سوچ کو اپنا لیتا اور پرانے بندروں کے ساتھہ مِل کر نئے بندروں کو سیڑھی چڑھنے سے روکنے کی کوشش میں  مارتا پیٹتا۔

اب کمرے میں سارے بندر ایسے تھے، جنہیں شاور کے پانی سے بھیگنے کا تجربہ نہیں تھا۔ لیکن سیڑھی کی جانب لپکنے والے بندر کو وہ بھی روکنے کی کوشش کرتے اور انہیں مارتے۔

اگر یہ ممکن ہوتا کہ ان بندروں سے پوچھا جا سکتا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟

تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوتا کہ ہمیں نہیں معلوم۔۔۔ ہم نے تو اپنے بزرگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔

کیا آپ کو یہ جملہ مانوس سا نہیں لگتا؟

کیا آپ کو محسوس نہیں ہوتا کہ روایات پرستوں کا ذہن ان بندروں کی طرح کبھی بھی آگے نہیں بڑھ پاتا۔ اگر ان روایات پرستوں کے سامنے حقائق، دلائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔۔۔ وہ صرف یہ روایت شدت پسندی کے ساتھ جاری رکھنا چاہتے ہیں کہ ان کے سابقہ ساتھی اور آباء واجداد یہی کرتے آئے ہیں۔

اسی طرح ایک دفعہ ایک آدمی مزار پر گیا، اس کی چابی گِر گئی۔ دوسرے آدمی نے گِری ہوئی چابی کو باہر درخت کے ساتھ لٹکا دیا کہ جس کی ہو گی، وہ لے گا۔ پھر جو آتا، چابی لٹکا دیتا کہ مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ اسی طرح مزاروں پر ایک دو چادر عقیدت محبت میں ڈالتے ہیں، ٹھیک ہو گی۔ لیکن سہرے، لال، سبز کپڑے ڈھیروں لٹکا دیئے جاتے ہیں۔ اس کے باریے مناسب طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔

Loading