Daily Roshni News

بیٹی  کو وقت دیں!۔۔۔ تحریر۔۔۔مشکور الرحمنٰ

بیٹی  کو وقت دیں!

تحریر۔۔۔مشکور الرحمنٰ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ بیٹی  کو وقت دیں!۔۔۔ تحریر۔۔۔مشکور الرحمنٰ )بیٹا ایشا کہاں ہو۔ دیکھو آپ کی سہیلی آپ سے ملنے کے لیے آئی ہے۔ امی کی آواز سن کر ایشا دوڑتی ہوئی کمرے سے باہر آئی۔

ارے صباء کیسی ہو، کتنے دن سے میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ اچھا چلو کمرے میں

بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔“ ایشاء صباء کو اپنے کمرے میں لے گئی۔ ایشا کیسی ہو اور میرا انتظار کیوں ہو رہا تھا …. ؟ خیریت تو ہے…..!” صباء بولی۔ یار کیا بتاؤں گھر میں پڑے پڑے بور ہو گئی ہوں۔ بھیا اور امی باہر نکلنے ہی نہیں دیتے۔ میں نے ضد کی کہ گھر پر بور ہوتی ہوں تو کیبل ہی لگوا دو۔ اس پر بھیا سخت ناراض ہو گئے اور کہنے لگے تمہیں معلوم ہے کہ کیبل پر  کیا کچھ دکھایا جاتا ہے…..؟ تم لڑکی ہو اپنی حیثیت سمجھو، ایسا نہ ہو کہ تمہاری کسی نادانی سے پورے گھرانے کو رسوا ہونا پڑے۔ امی بھی بھیا ہی کی تائید میں سر ہلا دیتی ہیں۔ جبکہ بھیا خود معلوم نہیں کہاں کہاں گھومتا رہتا ہے، راتوں کو دیر سے گھر آتا ہے۔ اگر امی سے شکایت کرو تو کہتی ہیں کہ وہ لڑکا ہے اور تمام لڑکے ایسا ہی کرتے ہیں۔ صباء! تم بتاؤ میں اس گھٹن زدہ ماحول میں کیسے رہوں ….؟ میرا بھی دل کرتا ہے کہ گھوموں پھروں، لوگوں سے باتیں کروں۔ آخر میں بھی انسان ہوں۔ تم کتنی خوش قسمت ہو ہر جگہ آتی جاتی ہو اور موبائل پر سب سے ڈھیر ساری باتیں کرتی ہو۔“

تم موبائل فون کیوں نہیں لے لیتیں….؟” صباء بولی۔

نہ بابانہ ! اگر میں نے موبائل فون کا ذکر گھر میں کسی سے کر دیا تو میری جان نکال دیں گے۔“ ایشا کہنے لگی۔

اچھا یار تم فکر نہ کرو میرے پاس ایک ایکسٹر اموبائل فون ہے میں تمہیں لا دوں گی۔“ ارے نہیں یار میں اسے استعمال کیسے کروں گی، کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آجائے گی۔“

ایسا کچھ نہیں ہوگا میں اسے چھپانے اور استعمال کرنے کا طریقہ بھی بتلا دوں گی اور یہ بھی بتلا دوں گی کہ اس میں پیسے نہ ہونے کے باوجود بیلنس کیسے آجاتا ہے….!”

کچھ روز بعد صباء نے ایشا کو موبائل فون لا کر دیا اور اس کے چھپانے اور استعمال کرنے کا طریقہ بھی بتا دیا اور کچھ لڑکیوں کے نمبر بھی دیے کچھ روز تو ایثا لڑکیوں سے بات کرتی رہی پھر ایک روز ایک لڑکی کے بھائی نے فون اٹھایا، پہلے تو ایشا گھبرائی پھر آہستہ آہستہ حوصلہ بڑھا۔ اب وہ لڑکیوں کے ساتھ ان کے بھائیوں اور کزن سے بھی باتیں کرنے لگی۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ یکسر دنیا ہی بدل گئی ہے۔ بیلنس اگر ختم ہوتا تو کسی بھی لڑکی کے بھائی یا کزن سے کہہ کر بیلنس اپنے فون میں منتقل کروالیتی۔ آہستہ آہستہ اس عمر کے تقاضے سر اٹھانے لگے اور ایشا لڑکیوں سے کم اور لڑکوں سے زیادہ باتیں کرنے لگی۔ MMS کے ذریعے ایک دوسرے کی تصاویر کا تبادلہ بھی شروع ہو گیا۔ اسی موج مستی میں ایک روز ایشا نے انجوائے کی غرض سے ایک فون نمبر ملایا۔ دوسری جانب کسی لڑکے کی آواز نے اسے مزید بات کرنے پر اکسایا۔ آخر یہ باتوں کا سلسلہ محبت تک جا پہنچا۔ جب لڑکی نے لڑکے کے متعلق یہ دریافت کیا کہ ، تم کیا کرتے ہو اور کہاں رہتے ہو تو اس نے کہا کہ میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں اور سبزی بیچتا ہوں۔ آمدنی اچھی ہے مگر خاندان بڑا ہونے کی وجہ سے ایک چھوٹے علاقے میں رہتا ہوں۔

اس جواب پر اکثر لڑکیاں اپنا راستہ تبدیل کر لیتی ہیں مگر ایشا تو اب بہت آگے آچکی تھی۔ اس نے لڑکے سے کہا اونچ نیچ اور غربی امیری میں کیا رکھا ہے۔ اصل چیز تو محبت ہے۔

ایشا نے MMS کے ذریعہ اپنی تصویر بھی لڑکے کو بھیج دی۔ لڑکے کے گھر والوں کو ایشا بہت پسند آئی اور ایک روز وہ اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر ایشا کے گھر پہنچ گئے۔ لڑکی کے والدین نے انہیں عزت سے بٹھایا۔ جب لڑکے کے کاروبار اور رہائش کے متعلق دریافت کیا تو سکتے میں آگئے۔ مگر زبان سے اس کا اظہار نہ کیا۔ مہمانوں کے جانے کے بعد ایشا کی والدہ نے ایشا سے کہا ” تم نے اتنا بڑا فیصلہ کر لیا اور ہم سے مشورہ کرنا بھی گوارہ نہ کیا۔“

ایشاڈھٹائی سے بولی ” امی اس میں برا کیا ہے۔

مائیں تو اپنی بیٹیوں کے رشتے تلاش کرنے میں نجانے کس کس سے کہتی ہیں۔ آپ کی بیٹی کا رشتہ تو گھر چل کر آیا ہے۔“

بیٹا تمہیں احساس ہے کہ لڑکا کیا کرتا ہے۔ تم تعلیم یافتہ ہو اور وہ ایک پانچویں پاس سبزی فروش، تم اعلیٰ سوسائٹی میں رہتی ہو اور اٹھتی بیٹھتی ہو۔

اوروه ….؟”

امی …! میں اسے پسند کرتی ہوں اور آپ مجھے مجبور نہ کریں کہ میں کوئی غلط قدم اٹھا لوں …. ایشا کی بات سن کر ایشا کی والدہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ اس واقعہ کا تذکرہ جب ایک ماہر نفسیات سے کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس سارے واقعہ میں ایشا کا اتنا قصور نہیں ہے جتنا کہ ایشا کی والدہ اور گھر کے ماحول کا ہے کیونکہ اس عمر کے دوران بہت سی جسمانی اور ذہنی تبدیلیاں ہو رہی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے مخالف صنف کی طرف کشش میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ در حقیقت اس دور میں حقیقت کو تصور سے علیحدہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس عمر میں محض ایک نظر محبت پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے اور دوسرا گھر کے ماحول میں بے جا رکاوٹیں بھی لڑکی کو بغاوت پر اکساتی ہیں کیونکہ لڑکے کے معاملہ میں لڑکی کے ساتھ سخت رویہ لڑکی کو بے چین کر دیتا ہے۔

اس ساری صور تحال میں ماں ہی وہ واحد ہستی ہے جو اپنی بچی کو سمجھتی ہے اور وہ اسے ان نئی آزمائشوں سے مقابلہ کرنے کا ڈھنگ سکھا سکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچی کو وقت دے اور اس کے مسائل کو سمجھے۔ ان سے پو چھا گیا کہ کیا موبائل فون نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے ….؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ”کوئی بھی چیز بری یا اچھی نہیں ہوتی اس کا استعمال اسے اچھایا پر اپنا دیتا ہے۔”

آج بہت سے نوجوان خاص طور پر لڑکیاں پریشان ہیں کہیں تنہائی انہیں ڈستی ہے تو کہیں گھر کا گھٹن زدہ ماحول اور کہیں لڑکی ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔ پھر ستم یہ ہے کہ بعض مائیں بھی اپنی بیٹیوں کے مسائل کو مسائل نہیں سمجھتی۔ ایسے حالات میں وہ کہیں تو پناہ تلاش کرے گی۔

اس دور میں اسے یہ پناہ موبائل فون کی صورت میں نظر آرہی ہے اور یہ اسے ہر وقت کا ساتھ تصور کرتی ہے۔ جس انداز میں بعض لڑکیاں موبائل فون کا استعمال کر رہی ہیں وہ صور تحال ان کے لیے ہی نہیں بلکہ بعض اوقات دوسروں کے لیے بھی تکلیف کا باعث بن جاتی ہیں…. بہت سی لڑکیاں جس انداز میں موبائل فون کریز میں مبتلا ہیں ایسا لگتا ہے کہ انہیں موبائل فوبیا ہو گیا ہے۔ ہر وقت انگلیاں موبائل کے اوپر دوڑتی نظر آتی ہیں میج Message جارہے ہیں اور میسج آرہے ہیں۔ یہ کہنا کچھ غلط نہ ہو گا کہ دوستی بڑھانے کے لیے موبائل فون کا آپشن آسان ترین ہے۔

اس آپشن سے بعض اوقات شدید نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے جو کہ خاص طور پر لڑکیوں کے لیے ساری زندگی کا روگ بھی بن سکتا ہے۔ ماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ شفقت، محبت اور اعتماد کا تعلق بنائیں۔ بیٹیوں کے لیے بہت فائدہ مند ہو گا کہ وہ اپنی ہر بات اپنی ماں سے لازما شیئر کرتی رہیں۔

بشکریہ ماہنا مہ  روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2018

Loading