Daily Roshni News

پیر رومی ؒ۔۔۔ تحریر۔۔۔ابن وصی۔۔۔قسط نمبر2

پیر رومی ؒ

قسط نمبر2

تحریر۔۔۔ابن وصی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ پیر رومی ؒ۔۔۔ تحریر۔۔۔ابن وصی)تا بہ ہفتم آسمان، افروخت علم ،آدم خاکی نے حق تعالی سے جو علم سیکھا ہے، اس علم کی بدولت ساتوں آسمان اس کے سامنے روشن کر دیئے گئے ہیں۔)

لیکن افسوس آدم اپنے آپ سے بے خبر ہے۔ وہ خود کو نہیں جانتا۔ رومی فرماتے ہیں

جمله عالم بست حاجتمند تو

تو گدایا نه چه گردی کو بکو

اس تمام عالم کو انسان کی حاجت مندی کے لیے بنایا ہے …. اے انسان!….. خود کو محتاج سمجھ کر بھٹکتا نہ پھر )

گر کف خاکه شود چالاک او

 پیش خاکش سر نهد افلاک او

 خاک آدم چونکه شد چالاک حق

پیش خاکش سر نهد املاک حق

 اگر ایک مٹھی مٹی ( یعنی انسان) اپنی زیر کی دکھائے تو اس کے سامنے آسمان جھک جائیں، خاک آدم کی مثال ایسی ہی ہے کہ اس کے آگے اللہ کی مملوک نے سر رکھ دیا۔)

کاملے گر خاک گیرد زر شود

 ناقص ار زر بُرد خاکستر شود

کامل انسان خاک پکڑے تو سونا بن جائے۔ ناقص اگر سونا لے لے تو خاک ہو جائے۔) تصوف اور روحانیت میں باطن کی بہت اہمیت ہے، مولانارومی فرماتے ہیں:

تونه ای این جسم تو آن دیده ای

 وا ربی از جسم گر جان دیده ای

آدمی دیده ست باقی گوشت و پوست

 برچه چشمش دیده است آن چیز اوست

 تو یہ جسم نہیں بلکہ آنکھ ہے، اگر تو جان یعنی اپنے اصل باطن کو دیکھ لے تو جسم سے نجات پا جائے، آدمی کی نگاہ اصل چیز ہے اسکے علاوہ گوشت پوست ہے۔ جو نگاہ نے دیکھا اصل چیز وہی ہے۔)

آدمی دید است باقی پوست

 است دید آن است آنکه دید دوست است

آدمی کی اصل نگاہ ہے، باقی تو کھال ہے اور نگاہ بھی وہ ہے جو دوست کو پہچان سکے)

جان چه باشد با خبر از خیر و شر

 شاد با احسان و گریان از ضرر

چون سرو ما بیت جان مخبر ست

 ہر که او آگاه تر با جان ترست

روح  را تاثیر آکابی بود

ہر که را این بیش اللهی بود

انسانی جان کی تعریف یہ ہے کہ وہ خیر و شر سے باخبر ہو، نیکی سے خوش، برائی سے غمگیں ہو، جان کار از و ماہیت اس کا باخبر ہونا ہے ، جو زیادہ آگاہ ہے وہ زیادہ محتاط ہے۔ روح کی تاثیر باخبری ہے، یہ تاثیر جس کو زیادہ حاصل ہے وہ اللہ والا ہے۔) رومی اور صوفیاء کرام کے نزدیک عشق اللہ تعالی کا قرب بخشنے والا جوہر ہے۔ عشق ہی عرفان و تصوف کا حقیقی سرمایہ ہے۔

وجود آدمی از عشق می رسد به کمال

 گر این کمال نداری، کمال نقصان است

 (آدمی کا وجود عشق سے ہی کمال تک پہنچتاہے، اگر تو یہ کمال نہیں رکھتا تو ہر کمال نقصان ہے)

 عشق جوشد بحر را مانند دیگ

 عشق ساید کوه را مانند دیگ

 عشق بشكافد فلك را صد شكاف

 عشق لرزاند زمین را از گزاف

(عشق سمندر کو دیگ جیسا کھول دیتا ہے، پہاڑ کو ریت جیسا میں دیتا ہے، عشق آسمان میں سو شگاف ڈال دیتا ہے اور زمین کو بآسانی لرزادیتا ہے)

مرده بدم زنده شدم، گریه بدم خنده شدم

 دولت عشق آمد و من دولت پاینده شدم

 میں مردہ تھا زندہ ہوا …. گریہ کناں تھا مسکرا اٹھا…. دولت عشق کیا ملی کہ میں خود

لازوال دولت ہو گیا ….)

برچه جز عشقست شد ماکول عشق

دو جهان يك دانه پیش نول عشق

(جو عشق کے سوا ہے وہ عشق کی غذا ہے، عشق کے لیے تو دو جہاں ایک دانہ کے برابر ہیں)

عقل در شرحش چو خر در گل بخفت

شرح عشق و عاشقی بم عشق گفت

( عشق کی تشریح میں عقل ناکام رہتی ہے اور عشق و عاشقی کی شرح بھی خود عشق کرتا ہے۔)

شاد باش اے عشق خوش سودائے ما

اے طبیب جملہ علتہائے ما

اے دوائے نخوت و ناموس ما

اے تو افلاطون و جالينوس ما

 (اے عشق ! تو بہت ہی اچھی بیماری ہے، جسے لگ جاتی ہے اس کے لیے جملہ بیماریوں کی طبیب بن جاتی ہے۔ اسے عشق ! تو جاہ و تکبر کی بہترین دوا ہے، تو ہی ہمارے لیے افلاطون و جالینوس ہے)

 پس یقین در عقل بر داننده بست

 این که با جنبیده جنباننده بست

 (مہر عاقل جانتا ہے کہ ہر متحرک کے لیے کوئی محرک ہوتا ہے، کوئی شے حرکت کرتی ہے تو اس کو حرکت میں لانے والا بھی کوئی موجود ہے)

تن بجاں جنبد نمی بینی تو جاں

 لیک از جنبیدن تن جان بدان

 (جسم کی حرکت روح کے سبب ہے لیکن تم روح کو نہیں دیکھتے اور جب کسی جسم میں حرکت کے آثار دیکھو تو اس کی روح کے وجود پر یقین کرلو) رومی نے انسان کو اس کا مقصد بتاتے ہیں۔

آدمی را ہست در بر کار دست

 لیک از و مقصود این خدمت بدست

 ما خلقت الجن والانس این بخوان

جز عبادت نیست مقصود از جهان

 (انسان ہر کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے، لیکن اس کا اصل مقصود خدمت خلق ہے۔ اور یہ آیت پڑھ لے ما خلقت الجن و الانس که انسان و جنات کو صرف عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔)

 فکر آن باشد که بکشاید راہے

راه آن باشد که پیش آید شاہے

( فکر وہ اچھی ہے جو راستہ دکھائے اور راستہ وہ مفید ہے جو شاہ حقیقی یعنی حق تعالی تک پہنچادے)

رومی نے صالح لوگوں ، بزرگ و اولیاء کی صحبت پر بھی کافی اشعار کہے ہیں۔

صحبت صالح ترا صالح کند

 صحبت طالح ترا طالح کند

(نیک لوگوں کی صحبت نیک بنا دیتی ہے اوربڑے لوگوں کی صحبت بر ابنادیتی ہے)

يك زمانه صحبت با اولیا

بہتر از صد سالہ طاعت ہے ریا

اللہ کے ولی کی صحبت کے چند لمحے سو سال کی بے ریا عبادت سے بہتر ہیں )

بمنشيني مقبلان چوں کمیاست

چوں نظر شاں کیمائے خود کجاست

بارگاہ حق کے مقبول بندوں کی ہم نشینی سونا ہے، بلکہ ان کے نظر کے سامنے سونا بھی کچھ نہیں)

 اولیا را بست قدرت از اله

 تیر جسته باز آرندش راه

 اللہ کے ولیوں کو رب کی طرف سے طاقت ملتی ہے کہ وہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کو بھی واپس کر دیتے ہیں یعنی ان کی نظر تقدیر بدل دیتی ہے) م

ولانارومی اخلاقیات پر بہت زور دیتے ہیں :

 خلق نيكو وصف انسانی بود

 آدمی با خلق بد حیوان شود

(اچھے اخلاق انسانیت کے اوصاف ہیں اور بد اخلاق آدمی جانور جیسا ہوتا ہے۔)

 بر که دراد در جهان خلق نکو

 مخزن اسرار حق شد جان او

 (جس شخص کے اندر اخلاق حسنہ دیکھو تو سمجھ جاؤ کہ اس کی روح اسرار حق کی حامل ہے۔) خير كن با خلق بهرا يزدت

یا برای راحت جان خودت

 (خدا کی رضا کے لیے مخلوق کے ساتھ خیر خواہی کر کے دیکھے ، تو روح میں راحت پائے گا) رحمت مادر اگر چه از خدا است

خدمت او بم فریضه است و سزاست

ترک شکرش ترک شکر حق بود

حق أولا شك بحق ملحق بود

 ماں کی رحمت اللہ کی عطا کردہ ہے۔ ماں کی خدمت کرنا فرض ہے۔ ماں کا شکر ادا نہ کرنا حق کا ناشکرا ہونے کے مترادف ہے، کیونکہ ماں کا حق، اللہ نے اپنے حق کے ساتھ ملحق کیا ہے۔)

رمز الكاسب. حبيب الله شنو

از توکل در سبب کابل مشو

اشارہ سمجھو کہ حلال روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے، توکل کے نام پر کابل نہ بن جانا۔ ) گفت پیغمبر با آواز بلند

 بر توکل زانوژ اشتر به بند

 (نبی پاک نے واضح انداز میں بتا دیا کہ اللہ پر توکل رکھو ساتھ ہی اونٹ کے گٹھنے بھی باندھو)

کر توکل می کند دو کار کن

 کسب کن بمه تکیه بر جبار کن

 اگر تو کل اختیار کرنا ہے تو دو کام کرنے ہوں گے تدبیر بھی کرو اور بھروسا صرف خدا پر کرو)

علم چو بر دل زنی یاری شود

 علم چوں برتن زنی مارے شود

علم کو اگر دل کی اصلاح میں استعمال کرو تو یہ بہترین یار ہے اور اگر تن پروری ، عیش کوشی، جاہ۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر2021

Loading