بے سکونی ذہنی امراض کا بنیادی سبب
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ بے سکونی ذہنی امراض کا بنیادی سبب)جن معاشروں میں بد امنی، بے سکونی، عدم تحفظ اور کرپشن موجود ہوتا ہے وہاں بھی نفسیاتی مسائل پروان چڑھتے ہیں۔ معاشی مسائل، بیروزگاری، خاندانی چپقلش ، بد عنوانی، بلیک مارکیٹنگ، دھوکہ دہی، بے ایمانی، بے انصافی اور حق دار کو اس کا حق نہ ملنا بے سکونی کا بنیادی سبب ہے۔ بے سکونی ر گویا کہ ذہنی امراض کی ماں ہے۔
کسی مغربی لیبارٹری میں ایک ٹیسٹ کیا گیا …. ایک تنگ پنجرے میں چوہے کو رکھا گیا, دن اور رات میں ہر دو تین گھنٹے کے بعد اسے بجلی کے ملکے جھٹکے دیئے جاتے۔ کھانے کے لئے روٹی کا ٹکڑا اسے اچھی طرح پریشان کرنے کے بعد دیا جاتا۔ سونے کی کوشش کرتا تو اسے مجبوراً زیادہ وقت بیدار رکھا جاتا، ایک دوسرے پنجرے میں اسی کا ہم عمر دوسرا چو ہار کھا گیا جسے تمام آسائشیں مہیا کی گئیں ۔ مزیدار پنیر کا ٹکڑا اور پر سکون ماحول …. نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے پنجرے کا چوہا کم صحت مند رہا اور دوسرے چوہے کے مقابلے میں کم عمری میں جب ایک چوہا دماغی مسائل اور دباؤ کی وجہ سے زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکا تو بھلا انسان کس طرح رہ سکتا ہے؟….
مادی آسائشوں کے باوجود بے سکونی موجودہ دور کا ایک بدترین المیہ ہے۔ دنیا میں تقریباً ہر شخص ہر جگہ کسی نہ کسی وجہ سے کسی نہ کسی صورت میں ذہنی انتشار اور نا آسودگی میں مبتلا نظر آتا ہے۔ ان مسائل سے دن کا سکون اور راتوں کی نیند برباد ہو کر رہ گئی ہے۔ حصول دولت کی دوڑ، قول و فعل کے تضاد، مسابقت کے غیر فطری رجحانات، بے روزگاری، بے انصافی اور مذہبی فرقہ واریت نے کئی ذہنی مسائل کو جنم دیا ہے۔ ذہنی امراض کا براہ راست تعلق انسانی دماغ سے ہے۔ دماغ چومیں گھنٹے نہایت مستعدی سے مصروف عمل رہتا ہے۔ جسم کا کمپیوٹر دماغ نیند کے دوران بھی اپنی ڈیوٹی سے غافل نہیں رہتا۔ نیند کے دوران خواب دیکھنا، خراٹے لینا، کروٹیں بدلنا، کسی شور سے چونک جانا، کسی آہٹ سے بیدار ہو جانا اور محسوسات و غیرہ دماغ کی مستعدی ہی کی وجہ سے
ہیں۔ دماغ سوتے اور جاگتے ہر وقت کام کرتا رہتا ہے لیکن سماجی اور معاشی مسائل اور دماغ میں ہونے والی بعض کیمیائی تبدیلیوں کے باعث دماغ اپنے معمول کے فرائض ادا کرنا کم کر دیتا ہے جس سے مختلف ذہنی امراض جنم لیتے ہیں۔
ذہنی مریض ہر دور اور ہر معاشرے میں رہے ہیں ۔ ذہنی مریضوں کے لئے پہلے ”پاگل“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہنی و نفسیاتی امراض کی تعریف اور طریقہ علاج میں بھی تبدیلی آئی گئی۔
اب نفسیاتی مریض ایک ایسا مریض ہے جس کا دواؤں اور کونسلنگ کے ذریعے علاج ممکن ہے۔ اکثر ذہنی مریضوں کو اپنی بیماری کا شعور نہیں ہوتا اور نہ ہی اسباب کی طرف ان کا ذہن جاتا ہے۔ ایسے مریض عموماً معالج کے پاس انتہائی خراب کیفیت میں پہنچتے ہیں۔
جو علامات ذہنی مرض کا پیشہ خیمہ ہو سکتی ہیں ان میں نیند اور بھوک میں قابل ذکر کمی یا زیادتی، مسلسل اداسی، مایوسی، رونا، بے پناہ گھبراہٹ، احساس تنہائی، سر درد، خوف، خود کشی کے خیالات آنا، بہت زیادہ غصہ، جنسی یا ازدواجی مسائل، کانوں میں آوازیں آنا، انسان یا جانوروں کی تصویر میں نظر آنا، بلا وجہ خوشبو یا بد بو کا احساس، دوسروں پر شک، تشدد اور مار پیٹ کے جذبے کا اضافہ ، ہر چیز کو جادو اور سفلی کا اثر سمجھ لینا، جنونی کیفیات، اپنے نظریات کو دوسروں پر زبر دستی تھونپنے کا جذبہ، اپنے سے مختلف نظریات کے لوگوں کو غلط قرار دینا اور بہت زیادہ باتیں کرنا یا بالکل خاموش پژمردہ ہو جانا، خیالی پلاؤ پکانا، مختلف قسم کے بے جا خوف مثلاً ہوائی جہاز کے سفر کا خوف، بند جگہوں خصوصاً لفٹ اور چھت کے نیچے بیٹھنے کا خوف، پانی کا خوف گھبراہٹ کے شدید دورے، سانس یا دل بند ہوتا محسوس ہونا وغیره وغیرہ….. بعض لوگ گندگی کے وہم میں اس درجہ مبتلا ہوتے ہیں کہ بار بار ہاتھ دھو کر یا دیر تک نہا کر کے بھی انہیں اطمینان نہیں ہوتا …. ڈپریشن زیادہ ، درمیانے اور کم درجے کا ہوتا ہے لیکن اس کی شکایات اور علامات ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ اس کی بعض وجوہ موروثی ہوتی ہیں البتہ اس کی وجوہ میں ایک حتمی مشتر کہ عمل دماغ کے خلیات میں رونما ہونے والی کیمیائی تبدیلی ہے جو دماغ کے اعصابی ٹرانسمیشن نظام میں خلاف معمول ہوتی ہے۔ اس کے ذمہ دار کیمیائی اجزاء سیر وٹونن اور نار اڈرینالن ہیں۔
بے خوابی اور بے سکونی:نیند قدرت کا بیش بہا عطیہ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں نیند کی کمی کی شکایت عام ہوتی جارہی ہے۔ بے خوابی کے باعث ناصرف غنودگی کے دورے پڑتے ہیں بلکہ کام کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔
ان افراد میں امراض قلب، بد ہضمی، ڈپریشن اور دیگر جسمانی و نفسیاتی مسائل جنم لینے لگتے ہیں مناسب نیند حاصل کرنے سے لوگوں میں چستی، تخلیقی قوت میں اضافہ اور مزاج میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔
اعصابی بیماریاں:
خوف و ہراس Phobias کی بیماری ہو ڈپریشن ہو یا شیزوفرینیا وغیرہ ہر قسم کے نفسیاتی امراض اس وقت ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور ان میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔
اعصابی بیماریوں کی ابتداء فضول قسم کی سوچوں سے ہوتی ہے جس سے اعصاب بھی شدید
متاثر ہوتے ہیں۔
ذہنی امراض کا علاج: عام مریضوں کی طرح ذہنی و نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کو بھی اپنے علاج کے لئے ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ ہر وقت علاج سے مرض کو بڑھنے سے روکا جاسکے۔ اس کے علاوہ نفسیاتی مریض کے لئے کونسلنگ Counseling بھی بہت معاون ہو سکتی ہے۔ اس میں مریض سے بر اور است گفتگو کی جاتی ہے اور اس کے مسائل کا جائزہ لے کر اس کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ مریض کے عزیز واقارب بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ مریض کو لوگوں سے اپنائیت کا
احساس ملے تو ان علامات میں بہت حد تک کمی رونما ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ معاشرے میں امن و سکون کا ماحول موجود ہو۔ جن معاشروں میں بدامنی، بے سکونی، عدم تحفظ اور کرپشن موجود ہوتا ہے وہاں بھی نفسیاتی مسائل
زیادہ پر وان چڑھتے ہیں۔
بے سکونی کو ختم کرنے میں سب کو اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی ….
ہمارے مذہب نے عبادات کا جو نظام عطا فر مایا اس میں گہرے ارتکاز سے فرد خود کو پُر سکون کیفیت سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ گھر کے افراد اگر کسی فرد کو بے سکون محسوس کریں تو انہیں اس کو سہار ا دینا چاہئے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر 2021