تازہ غزل پیشِ خدمت ہے
نشاطِ دل کی خاطر درد سارے بانٹ لیتے ہیں
سبق جن میں ہو چاہت کا شمارے بانٹ لیتے ہیں
کہ ان طغیانیوں سے فیض مشکل ہے جو مل جائے
مناسب ہے یہیں پر ہم کنارے بانٹ لیتے ہیں
یہ سورج کی قرابت جسم کوجھلسا بھی سکتی ہے
تو یوں کرتے ہیں آپس میں ستارے بانٹ لیتے ہیں
زمیں پر چیختی انسانیت آواز دیتی ہے
کہاں ہیں وہ جو مشکل میں سہارے بانٹ لیتے ہیں
زمیں احساس کی دولت سےجنت بن بھی سکتی ہے
جو اہل زر غریبوں سے خسارے بانٹ لیتے ہیں
زباں جو قید ہے ہر پل نمود حق پرستی پر
گھٹن کی اس فضا میں ہم اشارے بانٹ لیتے ہیں
ہماری سادگی نے اس قدر دھوکہ دیا ہم کو
کہ پھولوں کی طلب میں ہم شرارے بانٹ لیتے ہیں
تمہیں معلوم کیا کہ ہم شکم کی بھوک کے ہاتھوں
زمین غیر سے آنکھوں کے تارے بانٹ لیتے ہیں
مری خوشیاں تمہارے غم ملا کر اک جگہ تابشِ
جو ممکن ہو تو ہم سارے کے سارے بانٹ لیتے ہیں
شہزاد تابشِ
لاھور
پاکستان