شادی کا کھانا۔۔۔
تحریر۔۔۔ سیدہ شاذیہ مقصود
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ شادی کا کھانا۔۔۔ تحریر۔۔۔ سیدہ شاذیہ مقصود)ہمارے یہاں کھانا کھلنے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے معزز اور معتبر بنے لوگوں کی قلعی بھی ساتھ ہی کھل جاتی ہے ۔جیسے ہی لڑکی یا لڑکے کی طرف کی کوئی خاتون یا مرد لوگوں کو کھانے کی دعوت دیتے ہیں کہ آئیں جی کھانا کھائیں تو بعض معزز افراد اپنی ساری تہذیب کو ایک طرف رکھتے ہوۓ وہ طوفان بدتمیزی مچاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ !اس ساری صورت حال میں مزید دلچسپ مناظر اس وقت دیکھنے کو ملتے ہیں جب نک سک سے تیار خواتین نزاکت سے اپنی قیمتی ساڑی کا پلو پکڑ کر سہج سہج کر پوری محفل میں ایک ایک رشتہ دار کے ساتھ اداۓ دلبری دکھاتے ہوۓ خود کو کسی ہیروئن اور ماڈل سے کم نہیں سمجھ رہی ہوتیں اور کھانا کھلتے ہی ان کی ساری قلعی کھل جاتی ہے ۔یقین کریں یہ کئی تقریبات کا آنکھوں دیکھا حال ہے اور میں کہوں کہ لائو کوریج کی ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا ۔چلیں مرد حضرات اس طرح کی حرکتیں کریں تو پھر بھی چلتا ہے یہ لوگ کہتے ہیں ۔۔لیکن میرے حساب سے تو اخلاقیات سب پہ لاگو ہوتی ہیں چاہے مرد ہو یا عورت ہو۔
بات اسی پہ ختم نہیں ہوتی چمچ ہاتھ میں لے کر جب تک اپنی ساری بہن بھابھی چاچی خالہ کی پلیٹوں کو کے ٹو پہاڑ نہیں بنوادیتیں ان کو چین نہیں آتا۔ اس وقت ساری نزاکت اور بن بن کہ بات کرنا تیل لینے چلا جاتا ہے۔ یہی نہیں مال مفت دل بے رحم کی عملی تفسیر بنتے ہوۓ لوگ پلیٹ بھر بھر کر کھانا ضائع کرتے ہیں بے حسی کی یہ روایت آج بھی اپنی پوری آب و تاب سے زندہ ہے ۔۔
اسراف اللہ تعالی کو سخت ناپسند ہے ۔اگر لوگ صرف یہ بات سوچ لیں کہ کیا ہم اپنے گھر میں بھی اسی طرح رزق کا ضیائع کرتے ہیں صرف یہ سوچ لیں کہ یہ بھی رزق ہے جسے اپنی لالچ کے ہاتھوں ہم ضائع کر رہے ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ یہ رزق کسی اور کے پیسوں کا ہے۔
میں نے اچھے بھلے تمیز دار لوگوں کو بھی پیلٹیں بھر بھر کر کھانا ضائع کرتے دیکھا ہے اور بہت پڑھی لکھی مینرڈ خواتین بھی منہ بگاڑ کر اپنے بچوں سے کہہ رہی ہوتی ہیں چلو کوئی بات نہیں بیٹا آپ سے نہیں فنِش ہو رہا چھوڑ دو ۔۔اور گھر میں یہی عورتیں مار مار کر زبردستی بچے کے منہ میں نوالے ٹھونس رہی ہوتی ہیں۔کیونکہ کھانا اپنے پیسوں کا ہوتا ہے۔ ایک بار تو کسی شادی میں میں حیران رہ گئی تھی جب ایک نہایت نفیس بظاہر پڑھی لکھی رشتہ دار خاتون نے میٹھا نمکین سب ایک ہی پلیٹ میں بھر لیا تھا بقول ان کے مجھے لگتا ہے میٹھا کم پڑ گیا ہے ۔۔جاؤ تم بھی جلدی سے لے آؤ پھر ملے گا نہیں ۔ ساتھ ہی مجھے بھی مفت مشورہ ملا تھا۔ کوئی بات نہیں میں ویسےبھی اتنا میٹھا نہیں کھاتی ۔۔میں نے مسکرا کہ جواب دیا تھا۔بھئی اگر ختم بھی ہو گیا تو خدانا خواستہ زندگی کا آخری کھانا تھوڑی تھا ۔۔
بحرحال کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جو اصول گھر کے لئے ہوتا ہے وہی باہر بھی لاگو ہونا چاہیے اور کھانا چاہے کوئی بھی ہو اس کا ضیائع کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔
اب تو بیٹھ کر کھانے کی ایک بہت اچھی روایت ہماری تقریبات میں الحمدللہ قائم ہوچکی ہے لیکن دوسری اچھی روایت بھی ضرور قائم کرنے کی کوشش کریں اس ٹیبل پہ ایسے بیٹھ کہ کھائیں جیسے اپنے گھر پہ کھاتے ہیں جیسے اپنے گھر میں ڈش سے اپنی یا بچوں کی پلیٹ میں اتنا ہی ڈالتے ہیں جتنا آسانی سے کھایا جا سکے۔۔
اس معاشرے کو مزید کوئی اور ڈبل اسٹینڈرڈ نہ دیں۔شکریہ۔۔
ایک ادنیٰ سی کوشش۔۔