یہ کچھ سال پہلے کی بات ہے ایک دکان پر تازہ جلیبی بن رہی تھی وہ خریدی تو اخبار کا ساتھ آنے والا ٹکڑا پوری زندگی تبدیل کر گیا ۔۔۔ پڑھنے کا شروع سے شوق تھا
ہوا کچھ یوں کہ اُس ٹکڑے پر ایک کالم چھپا ہوا تھا۔ کالم نگار کا نام اب یاد نہیں ہے لیکن اس نے جو لکھا تھا وہ سب یاد ہے حرف بہ حرف تو نہیں، لیکن یاد ہے۔ آپ بھی پڑھیں۔
اُس نے لکھا کہ:
میں کل اپنے ایک کاروباری دوست کے پاس دفتر گیا چائے پی گپ شپ لگاتے ہوئے گھر جانے کا وقت ہو گیا۔ جب دفتر سے باہر نکل رہے تھے تو کلرک نے آ کر ایک شکایت لگائی کی جناب فلاں چپڑاسی سست ہے کام نہیں کرتا، ڈرائیور نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔
میرے اُس دوست نے کہا اگر کام نہیں کرتا تو کس لیے رکھا ہو ہے، فارغ کرو اسے۔ میں نے فورا مداخلت کی اور کہا، کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ایک دفعہ اس سے بات کر لو، کیا پتہ اسکے کچھ مسائل ہوں۔ پھر میں نے اپنے دوست کو ایک شیخ صاحب کا واقعہ سنایا۔
💥شیخ صاحب لاہور میں ایک معمولی سے دفتر میں ملازم تھے، دن کچھ ایسے پھرے کہ اسی دفتر کے صاحب کو پسند آ گئے اور یوں انکی فیملی میں ہی شیخ صاحب کی شادی ہو گئی۔
قدرت شیخ صاحب پر مہربان تھی، دن رات اور رات دن میں بدلتے گئے اور شیخ صاحب ایک دکان سے ایک مارکیٹ اور پھر ایک فیکٹری سے دو، چار، اور پھر نہ جانے کتنی فیکٹریوں کے مالک بنتے گئے۔
دھن برستا گیا، دو بچے ہو گئے۔ شیخ صاحب نے کرائے والے کمرے سے ایک اپارٹمنٹ اور پھر لاہور کے انتہائی پوش علاقے میں دو کنال کی ایک کوٹھی خرید لی۔ مالی کی ضرورت پیش آئی تو چکوال سے آئے ہوئے سلطان کو فیکٹری سے نکال کر پندرہ سو روپے ماہوار پر اپنی کوٹھی پر ملازم رکھ لیا۔
سلطان ایک انتہائی شریف اور اپنے کام سے کام رکھنے والا انسان تھا، نہ کسی سے کوئی جھگڑا، نہ کوئی عداوت، نہ کبھی کوئی شکایت۔ ایک بار شیخ صاحب دن کے دس بجے کسی کام سے گھر واپس آئے تو گاڑی دروازے پر ہی کھڑی کر دی
کہ ابھی واپس دفتر جانا تھا۔ دروازے سے گھر کے داخلی دروازے کے درمیان اللہ جانے کیا ہوا کہ پودوں کو پانی دیتے سلطان کے ہاتھ سے پائپ پھسلا اور شیخ صاحب کے کپڑوں پر پوری ایک تیز پھوار جا پڑی،
شیخ صاحب بھیگ گئے۔ سلطان پاؤں میں گر گیا، گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا کہ صاحب غلطی ہو گئی۔ لیکن شیخ صاحب کا دماغ آسمان پر تھا۔ غصے میں نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، وہیں کھڑے کھڑے سلطان کو نوکری سے نکال دیا۔کہا شام سے پہلے اس گھر سے نکل جاؤ۔
سلطان بیچارہ سامان کی پوٹلی باندھ کر گھر سے نکل کر دروازے کے پاس ہی بیٹھ گیا کہ شاید صاحب کا غصہ شام تک ٹھنڈا ہو جائے تو واپس بلا لیں۔ شام کو شیخ صاحب واپس آئے، دیکھا سلطان ابھی تک بیٹھا ہوا تھا، گارڈ کو کہا اسے دھکے دیکر نکال دو، یہ یہاں نظر نہ آئے، صبح ہوئی تو سلطان جا چکا تھا۔ رب جانے کہاں گیا تھا۔
وقت گزرتا گیا، شیخ صاحب کے تیزی سے ترقی پاتے کاروبار اور فیکٹریوں میں ایک ٹھہراؤ سا آنے لگا۔ کاروبار میں ترقی کی رفتار آہستہ آہستہ کم پڑتی گئی۔ لیکن شیخ صاحب زندگی سے بہت مطمئن تھے۔
پھر ایک فیکٹری میں آگ لگ گئی، پوری فیکٹری جل کر راکھ ہو گئی۔ کچھ مزدور بھی جل گئے۔ شیخ صاحب کو بیٹھے بٹھائے کروڑوں کا جھٹکا لگ گیا۔ کاروبار میں نقصان ہونا شروع ہوا تو شیخ صاحب کے ماتھے پر بل پڑنا شروع ہو گئے۔ بڑا بیٹا یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ تھا،
دوستوں کے ساتھ سیر پر مری گیا واپسی پر حادثہ ہوا تو وہ جوان جہان دنیا سے رخصت ہو گیا۔ شیخ صاحب کی کمر ٹوٹ گئی۔
نقصان پر نقصان ہوتے گئے۔ دو کنال کی کوٹھی بیچ کر دس مرلے کے عوامی طرز کے محلے میں آ گئے۔ جب عقل سے کچھ پلے نہ پڑا تو پیروں فقیروں کے ہاں چلے گئے کہ شاید کوئی دعا ہاتھ لگ جائے اور بگڑی ہوئی زندگی پھر سے سنور جائے۔ باقی ماندہ کاروبار بیچ کر اور کچھ دیگر پراپرٹی کو رہن رکھ کر بنک سے قرضہ لیا اور چھوٹے بیٹے کو ایک نیا کاروبار کر کے دیا۔
اسکے پارٹنر دوست نے دغا کیا اور سارا پیسہ ڈوب گیا۔ شیخ صاحب ساٹھ سال کی عمر میں چارپائی سے لگ گئے۔
ایک دن ایک پرانا جاننے والا ملنے آیا، حالات دیکھے تو بہت افسوس کیا۔ کہا شیخ صاحب ایک بزرگ لاھور آئے ہوئے ہیں، بہت بڑے اللّہ والے ہیں، اگر ان کے پاس سے دعا کروا لیں تو اللہ کرم کرے گا۔
شیخ صاحب فورا تیار ہو گئے۔ ان کے پاس پہنچے، ملاقات کی، مسئلہ بیان کیا۔ انہوں نے آنکھیں بند کیں، کچھ دیر مراقبے کی کیفیت میں رہے، پھر آنکھیں کھولیں، شیخ کو دیکھا اور کہا “تم نے سلطان کو کیوں نکالا تھا؟”
شیخ کے سر کے اوپر گویا ایک قیامت ٹوٹ پڑی، آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک نہ تھمنے والی لڑی جاری ہو گئی، شیخ بزرگ کے پاؤں میں گر گیا، معافیاں مانگنے لگا۔ بزرگ نے اسے کہا میری بات سنو۔ پروردگار رازق ہے، وہ رزق ضرور دے گا لیکن اسکا وسیلہ انسانوں کو ہی بنائے گا۔اوپر سے نیچے آتے پانی کی تقسیم جس طرح نہروں نالوں کی طرح ہوتی ہے رزق کی تقسیم اسی طرح ہے۔
پروردگار کے نزدیک ہم میں سے ہر ایک شخص وسیلہ ہے کسی اور کے رزق کا۔ اگر آپ وسیلہ بننے سے انکار کرو گے تو تمہارے حصے کا وہ رزق جو اس وسیلے سے تمہیں بطور معاوضہ مل رہا تھا ختم ہو جائے گا۔
تمہیں لاکھوں کروڑوں سلطان کو پندرہ سو روپے دینے کے لیے ملتے تھے۔ تم نے وہ روک لیے، اوپر والے نے تمہارا معاوضہ ختم کر دیا۔ اب جاؤ اور سلطان کو ڈھونڈو، اگر وہ مان جائے معاف کر دے تو تمہارے دن پھر جائیں گے۔
شیخ کی دنیا لٹ گئی، وہ سر پیٹتا گھر آیا پرانے کاغذات ڈھونڈتا رہا کہ شاید کہیں سلطان کا کوئی پتہ، کوئی شناختی کارڈ، کوئی اور معلومات مل سکیں۔ کچھ بھی نہ ملا تو شیخ دیوانہ وار سلطان کو ڈھونڈنے چکوال جانے والی بس میں بیٹھ کر چکوال چلا گیا۔ مگر سلطان نہ ملا۔
چھوٹا بیٹا ڈھونڈتا ڈھونڈتا چکوال اڈے پر آ پہنچا اور باپ کو واپس لاہور لے آیا۔ لیکن شیخ کا دل کا سکون ختم ہو گیا تھا۔ کچھ دن بعد شیخ پھر گھر سے غائب ہوا تو بیٹے کو معلوم تھا کہ کہاں ملے گا۔
وہ چکوال پہنچا تو دیکھا باپ زمین پر بیٹھا سر میں راکھ ڈال رہا تھا اور کہہ رہا تھا سلطان تم کہاں ہو، سلطان تم کہاں ہو۔ بیٹا خود روتا ہوا باپ کو واپس لے آیا۔ چند دن کے بعد شیخ کا انتقال ہو گیا۔
کالم نگار نے لکھا، میں نے اپنے دوست کو یہ پوری کہانی سنائی اور اسے کہا، چپڑاسی کو نہ نکالو، اسکا رزق تمہارے رزق سے جُڑا ہے، اسے تو رب کہیں اور سے بھی دے دے گا کہ اس کے پاس وسیلہ بنانے کے لیے کسی چیز کی کوئی کمی نہیں لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس معاوضے والی نعمت سے محروم ہو جاوؐ۔
مجھے یہ واقعہ پڑھے ہوئے کافی سال گزر گئے ہیں۔ آپ یقین کریں اس تحریر نے میری زندگی بدل دی۔ میں مالی معاملات میں بہت زیادہ محتاط رھتا ہوں۔ اگر کسی کے پاس کچھ پیسے ادھار کیصورت میں رہ گئے تو نہیں مانگے کہ کہیں اوپر والے سے ملنے والا معاوضہ کم نہ ہو جائے۔
کوشش ہوتی ھے کہ میری وجہ سے لوگوں کا رزق لگا رھے گھر میں کام والی رکھی تو مشکل حالات میں بھی انکار نہیں کیا کہ اسکا رزق لگا رھے
اپنے پاس کام کرنے والے کسی لڑکے کو کبھی نہیں نکالا کہ میری وجہ سے کسی کے گھر میں پریشانی نا ہو کسی کے رزق کا وسیلہ ختم نا ھو جائے
میں نے ہمیشہ نیک نیتی سے وسیلہ بننے کی کوششیں بھی کیں، میں کبھی تنگ دست نہیں ہوا۔ اللّٰہ نے ہمیشہ مجھے نوازا ، ایک سے بڑھ کر ایک وسیلہ ملتا گیا اور میں آگے بڑھتا رہا ۔۔۔
آپ بھی ارادہ کریں کہ کبھی آپکی وجہ سے کسی کا رزق بند نہیں ہو گا
آپ وسیلہ بنتے رھیں اللہ پاک آپ کیلئے وسیلے بناتا رھے گا ان شاءاللہ ..