Daily Roshni News

ستار العیوب۔۔۔ تحریر۔۔۔سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی۔۔۔قسط نمبر 1

ستار العیوب

تحریر۔۔۔سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

قسط نمبر 1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ستار العیوب۔۔۔ تحریر۔۔۔سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی )اللہ تعالیٰ کی کی صفت ستارالعیوب ہمارے عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک آدمی جب دوسرے آدمی کو دیکھتا ہے تو اس کا بشری چیرود کھائی دیتا ہے۔ عیب دکھائی نہیں دیتا ۔ اللہ کی صفت ستار العیوب آدمی کے آئینے پر اپنی روشنی کا پردہ ڈال دیتی ہے۔ اللہ کے سوا اور کسی کی نگاہ اس کے پر دے میں نہیں دیکھتی۔ میں سوچنے لگی اگر ہمارے درمیان سے اللہ تعالیٰ کی ستاری کا پر وہ ہٹ جائے تو ہر چہرہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا نظر آئے گا۔ پھر ایک دوسرے پر بھروسہ اٹھ جائے گا۔ اللہ ستار العیوب ضرور ہے ۔ مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے حد سے گزر جانے پر اللہ رحم نہیں کرتا۔ سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی کے قلم سے تین کہانیاں….

1۔رات کا پچھلا پہر ہونے کو آیا۔ مجال ہے جو ذرا بھی آنکھ جھپکی ہو۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ گذشتہ تقریباً دو مہینوں سے اب تو ان کا یہ روٹین ہی بن گیا ہے۔ ہفتے میں تین چار دن رات رات بھر غائب رہتے ہیں ۔ کچھ یع چھو تو بڑی صفائی سے کہہ دیتے ہیں۔

ارے میری جان! تمہیں کیا ہے۔ روزی کمانے کے لئے مردوں کو کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ جب میں پوچھتی ہوں کہ :مگر آپ تو دن میں کام پر جاتے ہیں۔ اب یہ رات کو بھی کیسا کام شروع ہو گیا ہے ۔ جس میں ہم آپ کی صورت کو بھی ترس گئے ہیں“۔ کتنے پیار سے کہتے:

” ارے تم تو میرے دل کی ملکہ ہو۔ میری جان ہو۔

تمہارے عیش آرام کے لئے مجھے ایکسٹر اکام بھی تو کرنے پڑتے ہیں نا۔

مگر میں تو آپ کی بیوی ہوں۔ میرا اصل عیش آرام تو آپ کی قربت ہے میں تنہا گھر میں پہن اوڑھ کے کس کو دکھاؤں گی“۔

کیسے مزے میں ہنس کے کہتے ہیں ۔ ہم تو تمہاری نظروں میں بستے ہیں ۔ جب تم آئینے میں اپنا عکس دیکھو گی۔ تو جان لینا ہم نے تمہارے سراپا کو چھولیا ہے”۔

اگر مگر کچھ نہیں ۔ بس اب سونے دو تھک گیا ہوں ۔ صبح کام پر جاتا ہے۔

الہی کیا کروں۔ میں کیسی بیوی ہوں وہ کیسا شوہر ہے۔ اللہ تو کہتا ہے میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں لباس تو جسم سے قریب تر رہتا ہے۔

ابھی تین سال پہلے کی ہی تو بات ہے۔ میں کالج سے اپنی سہیلی کے ساتھ باہر نکلی۔ چند قدم ہی چلے تھے کہ ایک خوبرو نوجوان نے سامنے آکر بڑی بے تکلفی سے میری سہیلی کو مخاطب کیا۔ ثانی وہ سامنے گاڑی ہے تمہیں لینے آیا ہوں۔ میری سہیلی خوشی سے اچھل پڑی۔ ارے بھائی جان آج آپ کو اس وقت کیسے فرصت مل گئی۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولی: نشو….! یہ میرے بھائی جان ہیں ۔ آجاؤ ہم تمہیں بھی اپنی گاڑی میں چھوڑ دیں گے۔

پھر اس نے تو جیسے گھر ہی دیکھ لیا۔ ثانی کو ہر روز لینے آجاتا۔ سیملی ہونے کے ناطے مجھے بھی لفٹ مل جاتی اور پھر آنے بہانے گھروں میں بھی آنا جانا شروع ہو گیا۔ پانچ چھ مہینوں میں بے قراری ایسی بڑھی کہ حدوں کو تجاوز کرنے کا مخطرہ لاحق ہو گیا۔ انہی دنوں ایک بڑا اچھا رشتہ آیا۔ یہ ہمارے دور پرے کے رشتے دار بھی تھے۔ سارا گھر اس رشتے کے فیور میں تھا۔ جب انہیں پتہ چلا تو اپنی ماں بہن کو رشتہ لینے میرے گھر بھیجا۔ میری ماں نے صاف انکار کر دیا کہ ہم نے اس کا رشتہ دیکھ لیا ہے۔ بس اگلے سال اس کی ڈگری کا آخری سال ہے۔ اس کے بعد اس کی وہاں شادی ہو جائے گی۔ ہم سب گھر والے اس پر خوش ہیں ۔ مگر یہاں تو قصہ ہی اور تھا۔ صاحب بہادر ہمارے عشق میں اندھے ہو رہے تھے اور بیچ پوچھو تو میرا بھی دل یہاں مائل تھا۔ صورت تو ہماری ہمیشہ سے جیسی تھی سو تھی۔ اس بے ایمان نے تعریف کر کر کے ایسا شیشے میں اتار لیا کہ اب آئینے میں اپنی جگہ کوئی حور نظر آنے لگی اور پھر اس پر طرہ یہ کہ اس کی ماں نے رشتے کی انکاری پر جیسے دل میں تہیہ کر لیا کہ یہ شادی تو ہونی ہی ہوتی ہے۔ آخر اس کے بیٹے میں کیا کمی ہے۔

جب باوجود بھر پور کوشش کے میرے ماں باپ اس رشتے پر راضی نہ ہوئے۔ تو کالج آتے

جاتے ایک دن یا سر کہنے لگا: میری ماں کہتی ہے جب لڑکی اور لڑکا بالغ ہو جائیں تو شریعت کے قانون کے تحت وہ اپنی پسند کی شادی کر سکتے ہیں ۔ چلو ہم کہیں اور جاکر شادی کرلیتے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

میرا دل اس کی یہ بات سن کے کانپ گیا تھا۔ میں نے اس سے کہا میرے ماں باپ میرا کیسے برا چاہ سکتے ہیں ۔ دراصل انہیں یہ اطلاع ملی ہے کہ تم جذباتی آدمی ہو۔ لا ابالی ہو۔ شادی کے بعد کی ذمہ داریاں نبھانہ سکو گے۔

یہ سن کر اسے کیسا جوش چڑھا تھا۔ کیا کہا میں جذباتی ہوں لا ابالی ہوں غیر ذمہ دار ہوں نشو کیا تم بھی مجھے ایسا سمجھتی ہو۔ تم تو میرے دل میں جھانک سکتی ہو۔ تم ہی بتاؤ کیا اس دل میں تمہیں کسی اور کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔

بھلا اس وقت میں اس کے دل میں کیا جھانکتی۔ اس وقت تو وہ کیوپڈ کا بت بنا ہاتھوں میں تیر لئے میرے سامنے کھڑا تھا جس کی نوک میرے مرکز دل میں چینے لگی تھی۔

میری ماں کہا کرتی تھی۔ بیٹی زندگی کے اہم۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  دسمبر 2018

Loading