ستار العیوب
تحریر۔۔۔سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
قسط نمبر 2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ستار العیوب۔۔۔ تحریر۔۔۔سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی )کاموں میں استخارہ کرنے کا حکم ہے۔ استخارہ اپنے کاموں میں اللہ پاک سے مشورہ کرنا ہے۔ میں نے استخارہ کیا۔ اللہ میاں سے دعا کرتے کرتے سو گئی تھی کہ اب اس کٹھن موڑ پر میں کون سا راستہ اختیار کروں ۔ پہلی رات ہی میں نے خواب دیکھا میں ایک انجان راستے پر چل رہی ہوں ۔ بڑی محویت کے ساتھ اپنی دھن میں چلی جاتی ہوں ۔ اتنے میں ایک ناگ آکر میرے پاؤں سے لپٹ جاتا ہے۔ میں چھڑا کر آگے بڑھتی ہوں ۔ پھر وہ ناگ آکے میرے بدن سے لپٹنے لگتا ہے۔ میں پھر اسے خوفزدہ ہو کے الگ کرتی ہوں ۔ وہ پھر میرے گلے سے لپٹ جاتا ہے۔ میں اسے الگ کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اسی خوف میں آنکھ کھل گئی۔ دوسرے دن پھر میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی نامعلوم منزل کی طرف بڑھی چلی جاتی ہوں ۔ میری پوری توجہ اس منزل کی طرف ہے کہ اتنے میں کیا دیکھتی ہوں کہ جس راہ پر میں چل رہی ہوں اس پر سانپ ہی سانپ ہیں ۔ جو میرے پاؤں سے لپٹ لپٹ کے میرے راستے کی رکاوٹ بنتے جاتے ہیں۔ سارے خواب میں میں ان سانپوں کو ہٹاتی رہی اور چلنے کے لئے اپنی راہ ہموار کرتی رہی۔ ساتھ ساتھ دل میں یہ عزم بھی رہا کہ ان سانپوں کے ڈر سے میں رکنے والی نہیں۔
خواب سے جاگی تو دماغ کہنے لگا۔ اس سے پہلے تو کبھی میں نے سانپ نہیں دیکھے تھے۔ ضرور اس کا تعلق میری ازدواجی زندگی سے ہے۔ میرے دل نے فور جواب دیا تم اتنی کم ہمت کب سے ہو گئی راہ کے سانچوں سے ڈر گئیں کم ہمت اور ڈرپوک لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں ۔ ان خیالات سے میرے عزم کو اور تقویت ملی۔
جب میں خواب سے جاگی۔ تو سب سے پہلے میرے دل میں خیال آیا۔ میر انفس مجھے سانپ بن بن کے مجھے میرے کام سے باز رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں اپنے نفس کا کہنا نہیں مانوں گی جو مجھے دشمن کے بھیس میں ڈرا رہا ہے۔ تب میں نے اپنے رب سے بڑی عاجزی کے ساتھ رجوع کیا۔ اور پھر ہماری شادی ہو گئی۔
ان تین سالوں میں اللہ پاک نے سارے راستے ہموار کر دیئے اور اب یہ باد مخالف کیسی چلنے لگی ہے ۔ چند دن اور اسی ڈھب پر گزر گئے۔ ایک رات کے پچھلے پہر جب وہ گھر لوٹا۔ میں بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر چونک گیا۔ گھبرا کے بولا تو ابھی تک جاگ رہی ہے ۔ میں نے کہا آپ کا انتظار کر رہی تھی ۔ نرم سے لہجے میں شرمندہ شرمندہ سا کہنے لگا۔ جان من! میرا انتظار نہ کیا کر۔ جاسو جا۔ اس دم مجھے یوں لگا جیسے میرے اور اس کے درمیان ایک پردہ سامٹ رہا ہے ۔ میری نگاہ اس کے چہرے پر جم کر رہ گئی۔ اس کے پیچھے اس کے خیال کی روشنی میں اس کے گزرے لمحے کا عکس میں نے دیکھ لیا کہ اب اس کی جان من میں نہیں بلکہ کوئی اور ہے قبل اس کے کہ میرا کمزور نفس درمیان میں آتا۔ میر اوہ عزم اس کے چہرے اور میری نگاہ کے درمیان حجاب بن گیا۔ جس عزم کے ساتھ میں نے اپنے رب سے اس کی لکھی تقدیر پر استقامت چاہی تھی۔ دل نے کہا اے میرے رب ہم سب تیرے کمزور بندے ہیں ۔ جس طرح تو اپنے بندوں کے عیب ڈھانپتا ہے مجھے بھی اس کی توفیق عطا فرما اور ہمارے نفسوں کی کمزوریاں دور فرما۔
اس دن مجھے پتہ چلا اللہ تعالیٰ کی ستار العیوبی کیا ہے۔ میں اپنے دل کا درد بھول کر اس کی ستاری پر غور کرنے لگی۔ اس کی صفت ستارالعیوب ہمارے عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک آدمی جب دوسرے آدمی کو دیکھتا ہے۔ تو اس کا بشری چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ عیب دکھائی نہیں دیتا۔ نفس کی ہر کمزوری روشنی کی ایک تصویر ہے۔ گناہ کی تمام تصویریں چہرے کے آئینے میں منعکس ہو جاتی ہیں ۔ اللہ کی صفت ستار العیوب آدمی کے آئینے پر اپنی روشنی کا پردہ ڈال دیتی ہے۔ دوسرا کوئی اس کے گناہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ اللہ کے سوا اور کسی کی نگاہ اس کے پر دے میں نہیں دیکھتی۔ میں سوچنے لگی اگر ہمارے درمیان سے اللہ تعالی کی ستاری کا پر دو ہٹ جائے۔ تو ہر چہرہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا نظر آئے گا پھر ایک دوسرے پر بھروسہ اٹھ جائے گا۔ سب ایک دوسرے کے خیالات کا عکس اس کے چہرے پر دیکھ لیں گے۔ اس دنیا میں ہر شئے مفروضہ ہے۔ اس دنیا کا انسان بھی فکشن ہے۔ بدلتی چیز کا کیا اعتبار ۔ ہر لمحے ایک خیال روشنی بن کر اس کے اوپر چھا جاتا ہے۔ پھر دوسرے لمحے دوسرا خیال آجاتا ہے۔ ایک رنگ آتا ہے۔ ایک رنگ جاتا ہے۔ مٹی کی دنیا کی ہر چیز مٹی ہے
۔ مٹی کے کھلونوں پر یہاں رنگ رنگ کی پالش کر کے پیش کیا جارہا ہے۔ ہے تو مٹی ہی ، وہ حقیقت، وہ ساقی ، وہ ساغر ، وہ شراب کہاں ہے۔ جس کا مزا میں نے ازل میں چکھا تھا۔ وہ کبھی نہیں بدلتی۔ نہ اس کا رنگ بدلتا ہے۔ نہ اس کا مز ابدلتا ہے۔
میرے دل میں ندا آئی پھر کیا بدلتا ہے ، پھر کیا بدلتا ہے، پھر کیا بدلتا ہے….؟ اسی تکرار کے ساتھ ایک زور دار چھنا کے کی آواز آئی۔ مٹی کا پیالہ ٹوٹ کر کر چیں کر چیں ہو چکا تھا۔ میر اعزم اب بھی باقی تھا۔ اسے اپنے وعدے کا پاس تھا۔ ساقی میخانہ نے ایک گھونٹ پلا کر اسے رند کی صف میں کھڑا کر دیا تھا۔ میرے عزم نے اپنی مٹی کی دیواریں گرتی دیکھ کر ساقی کے قدموں میں سر جھکا دیا۔ ساغر نہ رہا۔ تو کیسے شراب پیوں گی۔
تجھے تیری ستاری اور تیری کریمی کا واسطہ۔اے میرے رب ! میرے لئے ایسا سافر بنا دے۔ جو کبھی نہ ٹوٹے۔ ایسی شراب پلا جس کا سرور ہمیشہ قائم رہے۔
شان کریمی جوش میں آگئی۔ اسی ستار العیوب نے مٹی کے ہر ٹکڑے پر اپنا حجاب ڈال دیا۔ آج تمہیں موت کے ساغر میں زندگی کی شراب پلائی جائے گی ۔ نہ جس کا کبھی مزا بدلے گا، نہ ساغر بدلے گا، نہ ساقی بدلے گا۔
میرے عزم نے ساقی کے قدموں میں اپنی جان رکھ دی اور ہمیشہ کے لئے فنا ہو گیا۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر 2018