دوستو موٹیویشنل سپیکرز آپ کو کبھی کامیاب نہیں بنا سکتے ۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )دوستو موٹیویشنل سپیکرز آپ کو کبھی کامیاب نہیں بنا سکتے ۔ وُہ عُمومی باتیں کرنے کے ماہر ہوتے ہیں اور عُمومی باتیں عُمومی لوگوں اور اذہان کے لیے ہوتی ہیں ۔ کامیابی کیا ہوتی ہے ؟ پہلے آپ کو یہ سوال خُود سے کرنا چاہئیے کہ آپ کامیابی کِسے کہتے ہیں ؟ مِثال کے طور پر ایک بندے کا آئیڈیل یا کامیابی کا تصور “ بِل گیٹس “ ہے تو اُسے کیا کرنا چاہئیے ؟ اُسے سمجھنا چاہئیے کہ بطور رول ماڈل بِل گیٹس ٹھیک ہے لیکن وُہ شاید کبھی بِل گیٹس نہ بن پائے ہاں اُس کی فیلڈ اُسے مُناسب یا غیر معمولی کامیاب ضرور کر سکتی ہے لیکن اِس کے لئے اُسے کمپیوٹر ( آئی ٹی ) کے ضمن شدید محنت درکار ہوگی ۔ یہ مِثال دیے بغیر بھی کام چل سکتا تھا کیونکہ ابھی کِسی نے کہنا ہے کہ امریکہ میں موجود رہ کر بِل گیٹس بنا جا سکتا ہے یا اُس کو بھی کراس کِیا جا سکتا ہے تو عرض ہے کہ آپ شاید امریکہ میں یا کہیں اور بھی بل گیٹس سے زیادہ دولت کمانے کے اہل ہو جائیں لیکن دستیاب اور موجودہ حالات میں مائیکرو سوفٹ جِس بُلندی پر چلا گیا ہے وہاں کِسی اور نئے سافٹ وئیر کی کامیابی تو مُمکن ہے لیکن مائیکرو سافٹ جیسی کامیابی ایک نامُمکن سا خواب ہے ۔ مائیکرو سوفٹ تب کامیاب ہُوا جب کمپیوٹرز دُنیا میں خاص افراد سے عام افراد تک آنے کا سفر شُروع کرچُکے تھے ۔ آپ ایپل کمپیوٹرز ( سفاری ) کی مِثال لے لیں ، مہنگے ہونے اور کلاسی ہونے کے باوُجود زیادہ تر لوگ مائیکرو سافٹ کو ترجیح دیتے ہیں ، اینڈروئیڈ تو اِس مارکیٹ میں کافی پیچھے ہے ۔
خیر یہ بحث کہیں اور جا رہی ہے تو بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ موٹیویشنل سپیکرز اچھے ہوتے ہیں ، اُن کو سُن کر اچھا لگتا ہے ، اپنے ہاں وُہ ایسی باتیں کرتے ہیں جو ہماری پہلے سے پڑھی گئی باتوں کی مزید تائید کرتی ہیں ، مذہب کا بیانیہ یا ایسے کہنے کہ خُدا چاہے تو وُہ کیا کُچھ نہیں کرسکتا بظاہر ٹھیک ہونے کے باوجود غیر متعلقہ ہے کیونکہ جب آپ فیلڈ ، مُقابلے یا امتحانات میں بیٹھتے ہیں تو خُدا آپ کی نہیں بلکہ زیادہ محنت کرنے والے یا زیادہ اہل اُمیدوار کی طرف تو ہوسکتا ہے لیکن آپ کی دُعائیں کافی نہیں رہتیں گو ناچیز کے خیال میں ایسے حالات میں خُدا غیر جانبدار رہتا ہے ۔ ہمارے ایک ہیڈ اوو دی انگلش ڈیپاٹمینٹ کہتے تھے کہ اُنھوں نے جب آنکھ کھولی تو وُہ ایک یتیم خانے میں تھے ، سارا دِن گالیاں اور طعنے مقدر تھے ، اچھا کھانے کو کُچھ خاص نہیں مِلتا تھا اگر کِسی شے کی بُہتات تھی تو وُہ مار تھی ۔ رو دھو کر پرائیویٹ میٹرک کِیا اور وہیں یعنی یتیم خانے میں ایک کلرک لگ گئے لیکن دِل میں کہیں خواہش تھی کہ اُس ماحول سے باہر نِکلا جائے ۔ پرائیویٹ امتحانات دیتے رہے ، پڑھتے رہے ، بی بی سی ریڈیو سے اپنی انگریزی کا تلفظ بہتر کِیا ، پرائیویٹ ماسٹرز انگلش میں کیا ، میرٹ پر اسسٹنٹ لیکچرر بھرتی ہُوئے ، پھر مُلازمت کے دوران ایم فِل اور شاید پی ایچ ڈی بھی کِیا ( شاید اِس لئے کہ وُہ پی ایچ ڈی تھے لیکن مُجھے کنفرم یاد نہیں ) ۔ اب وُہ حافظِ قُرآنِ بھی تھے تو کافی مذہبی اِنسان تھے ۔ وُہ ہمیشہ کہتے کہ اِنسان اپنے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک ( ماسوائے خُود کُ** کرنے والوں کے ) آزاد ہے ۔ وُہ ہر فیصلہ لے سکتا ہے ، تقدیر محض ہارے ہُوئے لوگوں کی باتیں ہیں ہاں آپ کو یہ ضرور سمجھنا ہوگا کہ آپ کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں ۔
اب موٹیویشنل سپیکرز کے بجائے اگر افورڈ کر سکیں تو پروفیشنل ہیلپ لیں ، اُس سے بھی پہلے اپنا گول طے کریں ۔ اگر آپ کا گول نہیں تو آپ کُچھ بھی نہیں ہاں لیکن آپ کا گول یا مقصد حقیقت پسندانہ ہونا چاہئیے نہ کہ ایسا کہ چُونکہ “ کرم کا درجن تیرہ کا ہوتا ہے “ تو مُجھ پر بھی کرم ہو جائے ۔ کرم کوئی سپیشل نعمت نہیں بلکہ اپنے کام میں مہارت ہی “ کرم “ ہے ۔ آپ اپنے کام اور لگن کو اپنا مقصد بنالیں ، اُس میں کُچھ “ ہزار گھنٹے “ یعنی کم از کم پانچ سال دیں اگر زیادہ نہیں بھی دے سکتے تو بہتری آئے گی ۔
اپنے گول طے کریں تو بقول عامر خان کامیابی سالی جھک مارتی پیچھے آئے گی ۔
سلامت رہیں ۔
28/11/2020
Haroon Mali