“امید” بڑی خطرناک چیز ہے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)”کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ “امید” بڑی خطرناک چیز ہے۔ ایک کینسر ہے جو جسے لاحق ہو جائے، وہ بار بار اس کے ہاتھوں مرتا ہے۔ ” میں نے کافی کے کپ کناروں پر انگلی پھیرتے ہوئے یونہی کہا تو وہ مدھم سا مسکرا دیا۔
یہ اس کے متفق ہونے یا نہ ہونے کے اظہار کا واحد طریقہ تھا۔
“امید خطرناک ہوتی تو ہم روز اس امید پر کبھی الوداع نہ کہتے کہ دوبارہ ملیں گے۔” اس کی مسکراہٹ ہنوز قائم رہی۔
میں نے سر بے ساختہ نفی میں ہلایا۔
“امید” بہت دھوکے باز ہوتی ہے۔ اس سے بڑا دھوکہ تو انسان بھی نہیں دیتے۔”
اب کی بار اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔ شاید میرے چہرے پر رقم تحریر اسے سمجھ آنے لگی تھی۔
“اچھا وہ کیسے؟” سوال آیا تھا مطلب گفتگو جاری رکھنے کے لیے اسے دلیل چاہیے تھی۔
“کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ “امید” نہ ہوتی تو ٹوٹتی آس ہر روز مجھے لہو لہان نہ کرتی۔ مطلب میں ہر روز اس “امید” کے بہکاوے میں آکر اٹھتی ہوں کہ آج تو۔۔۔۔۔ آج تو کچھ اچھا ہو ہی جائے گا۔ کچھ تو نیا ہوگا جو میری اس بلیک اینڈ وائٹ زندگی میں رنگ بھر دے گا۔لیکن اسی “امید” میں صبح سے شام ہوجاتی ہے اور جانتے ہو کہ اس وقت میری کیفیت کیسی ہوتی ہے؟”
کپ میں بچی کافی ٹھنڈی ہوگئی تھی اور اس کا تلخ گھونٹ بھرنا اب مشکل ہوتا جارہا تھا۔
میں نے بات جاری رکھی۔
“جیسے کسی اپنے بہت پیارے کے لوٹ آنے کا شدت سے انتظار ہو مگر شام ڈھل جائے اور وہ نہ آئے۔یوں ہر روز اسی امید پر زندہ ہوتی ہوں اور رات ڈھلتے ہی مر جاتی ہوں۔” وہ خاموش بیٹھا بس میرا چہرہ تکتا رہا کہ اس کیفیت پر وہ مجھے خالی تسلی بھی تو نہیں دے سکتا تھا۔
“اس “امید” پر زندگی کی خراب گاڑی دھکیلتی جارہی ہوں کہ کبھی تو میں اپنی من پسند جگہوں پر پہنچ ہی جاؤں گی۔ کبھی تو یہ گاڑی بنا کسی زبردستی کے بھاگنے لگے لگی۔۔۔۔۔ لیکن آخر کب؟” میری اونچی ہوتی آواز نے کیفے میں بیٹھے لوگوں کو میری طرف پلٹ کر دیکھنے پر مجبور کردیا تھا لیکن نہ تو میری آواز کم ہوئی اور نہ اس میں موجود تلخی۔
“نئے نئے لوگوں سے ملتی ہوں، دوست بنانے کی کوشش کرتی ہوں۔ اس “امید” کے ساتھ ہر کسی سے بات کرنے کی کوشش کرتی ہوں کہ میرا بھی ایک سرکل بن جائے گا۔ لیکن تمہیں معلوم ہے کہ اسی سرکل میں میں مِس فِٹ ہوجاتی ہوں۔ پھر سے اکیلی رہ جاتی ہوں۔ یہ سب اس “امید” کے دھوکے نہیں ہیں تو پھر کیا ہے؟”
میری آنکھوں میں ابھرتی نمی اس سے چھپی نہیں رہی تھی۔ اس لیے اس نے اپنی جیب میں موجود رومال نکال کر میرے آگے کیا اور نرمی سے کچھ سمجھانا چاہا۔
“مسئلہ “امید” میں نہیں ہے۔ مسئلہ غلط جگہ، غلط خوابوں، غلط خواہشوں، غلط وقت اور غلط لوگوں سے امید لگانے میں ہے۔ جس دن تم جان جاؤ گی کہ اپنی امید تم خود ہو، اس دن سب کچھ بدل جائے گا۔” میں اس کے دیئے گئے رومال سے اپنی بھیگتی آنکھیں صاف کرنا بھول چکی تھی۔ یاد رہا تو بس اتنا کہ وہ بول رہا تھا اور مجھ پر اسے سننا فرض ہوگیا تھا۔
“تمہیں ہر روز اپنے لیے اچھا خود کرنا ہے، خود کچھ نیا ڈھونڈ کر لانا ہے۔ اپنی اس بلیک اینڈ وائٹ زندگی میں رنگ خود بھرنے ہیں۔ تمہیں اپنی من پسند جگہوں پر پہنچنے کے طریقے خود تلاشنے ہیں۔”
“امید بس رستہ دکھاتی ہے، منزل پر پہنچنا ہمارا کام ہوتا ہے۔” وہ سمجھا چکا تھا اور میں شاید سمجھ بھی گئی تھی
کچھ دیر بعد ہماری ملاقات کا وقت ختم ہوگیا تھا۔
جاتے سمے اس نے یہی امید دلائی تھی کہ “پھر ملیں گے۔”
اور میں اسی “امید” میں ہر روز اس کیفے میں آتی ہوں کہ شاید اسے اپنا وعدہ یاد آجائے اور وہ مجھ سے ملنے یہاں آجائے لیکن نہ وہ آتا ہے اور نہ ہی یہ امید مرتی ہے۔
اس نے ٹھیک کہا تھا۔
“مسئلہ امید میں نہیں ہے۔ مسئلہ غلط لوگوں سے امید لگانے میں ہے۔”
جیسے میں نے اُس سے لگا لی تھی۔