دسمبر کی راتیں
شاعر۔۔۔ناصر نظامی
گئے موسموں کی کہانی سنائیں
دسمبر کی راتیں دسمبر کی راتیں
مجھے رات بھر ساتھ اپنے جگائیں
دسمبر کی راتیں دسمبر کی راتیں
یہ برفیلی برفیلی سی سرد راتیں
یہ زہریلی زہریلی بے درد راتیں
میرے گھر میں آ آ کے کیوں سنسنائیں
دسمبر کی راتیں دسمبر کی راتیں
نظر تا نظر ہے جدائی کی زردی
غموں کی نئی سے نئی ایک وردی
میرے زیب تن کے لئے لے کے آئیں
دسمبر کی راتیں دسمبر کی راتیں
اداسی کے دل پہ لگے ایسے پہرے
سکوت فضا سے ہوئے کان بہرے
ہواؤں کی ڈفلی بجے سائیں سائیں
دسمبر کی راتیں دسمبر کی راتیں
ہوئی دل کی چھت پہ جو یادوں کی بارش
میرے دل نے رو رو بہت کی گزارش
میرے دل کے کچے مکاں کو نہ ڈھائیں
دسمبر کی راتیں دسمبر کی راتیں
سمندر سمندر خلا دوریوں کا
پرانا وہی قصہ مجبوریوں کا
کہاں تک یوںہی ریت کے گھر بنائیں
دسمبر کی راتیں دسمبر کی راتیں
محبت کی راہوں میں ہم ایسے اکھڑے
ہوئے ٹوٹ کے اس قدر دل کے ٹکڑے
کسے ہم سمیٹیں کسے ہم اٹھائیں
دسمبر کی راتیں دسمبر کی راتیں
یہ چاہت کا اظہار تھا یا گماں تھا
اگر آگ نہ تھی تو کیسا دھواں تھا
فریب نظر تھیں تمہاری ادائیں
دسمبر کی راتیں دسمبر کی راتیں
میرے دل کے سپنوں کے اجلے کھلونے
بکے شہر کی منڈی میں اونے پونے
سر عام آ آ کے بولی لگائیں
دسمبر کی راتیں دسمبر کی راتیں
کبھی شعر لکھاکبھی گیت گایا
کبھی بیتے لمحوں کا در کھٹکھٹایا
کبھی دل ہی دل میں دیں تجھ کو صدائیں
دسمبر کی راتیں دسمبر کی راتیں
کبھی ایک شب آؤ مل کے گزاریں
شب غم کی یہ الجھی زلفیں سنواریں
محبت کا کوئی دیا ہم جلائیں
دسمبر کی راتیں دسمبر کی راتیں
میرے چند لفظوں کی سوغات لے لو
خلوص نظر کے یہ جذبات لے لو
میرا دل سدا تم کو دے گا دعائیں
دسمبر کی راتیں دسمبر کی راتیں
ناصر نظامی
ایمسٹرڈم ہالینڈ
دسمبر 1999