مسلم سائنس دان
ابو القاسم الزہراوی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔مسلم سائنس دان ابو القاسم الزہراوی)جدید سرجری کے بابا ، اناٹومی کے شارح میڈیکل آپریشن میں تعمل سرنج چاؤ چھٹی اور دیگر می منی آلات کے بانی کا انصاری خاندان کے چمکتے ستارے ۔موجودہ زمانے میں علاج کے دو معروف طریقے ہیں، ایک میڈیسن یعنی دوا سے علاج اور دوسرا جراحت یعنی سرجری …. اگر چہ ایلو پیتھی کے متعلق ایک خیال یہ ہے کہ دیسی طلب ہی کا چربہ ہے، مگر جراحت، یعنی سرجری کو خاص طور پر یورپ کے ڈاکٹروں کی تکنیک سمجھا جاتا ہے۔ اس خیال کے پھیلنے کی وجہ محض یہ ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے زریں کارناموں سے واقف نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ کئی مسلمان طبیب اور سرجن ایسے تھے، جنہوں نے طبی دنیا کو جراحت اور سرجری سے روشناس کرایا۔ آج یورپ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں میں اعلیٰ معیار کی علاج و معالجے اور جدید سرجری کی سہولیات ہونے کی وجہ سے کئی ممالک کے لوگ وہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ایک دور تھا جب ماضی کے ان ترقی یافتہ ممالک میں سرجری یعنی جراحت کو ایک جرم اور گناہ سمجھا جاتا تھا۔
قرون وسطیٰ تک جراحی میں زیادہ ترقی نہ ہوئی۔ کلیسا کا مقولہ تھا کہ چرچ کو خون کا بہنا پسند نہیں“۔ لہذا جراح نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ بند، یونانی، رومی اور بازنطینی خطوں میں پروہتوں اور پادریوں کا معاشرے پر گہرا اثر تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انسانی جسم محترم ہے ، قیامت کے وقت ہمارے ہی جسم اٹھائے جائیں گے اس لیے موت کے بعد اسے پریشان نہیں کرنا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ اس دور میں علم تشریح یعنی اناٹومی کے لیے جسم کی چیر پھاڑ یا جراحت کے لیے انسانی جسم کے کسی حصہ کو چیر الگانا یا خون نکالنا انسان جسم کی تذلیل سمجھا جاتا اور ایسا کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ مغربی اقوام کے برعکس مسلمان طبیبوں نے طب کے ساتھ تشریح ابدان اور جراحت کو بھی اہمیت دی۔ عباسی خلیفہ منصور نے شہر بغداد میں علم کے فروغ کے لیے ادارہ بیت الحکمت “ قائم کیا، جہاں دنیا بھر کے علوم کا عربی زبان میں ترجمہ کیا جاتا، اسی دور میں یونانی، رومی، ہندی، چینی اور قبطی زبانوں سے طلب کے علوم کو عربی زبان میں منتقل کیا گیا۔ جب طب میں تشریح ایران اور جراحت کی ضرورت محسوس ہوئی تو مسلمانوں نے علم کے اس میدان میں تحقیقی کام شروع کر دیا۔ اس کام کی ابتداء بن مانس کے اندرونی اعضاء کو سمجھنے سے ہوئی۔ اگر چہ قدیم یونان اور روم میں جراحی کو ایک علم کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا لیکن اس دور میں جراحی کا کام صرف کسی چوٹ یا زخم اور ہڈیوں کے فریکچر پر مرہم پٹی کرنا، کان کا میل اور زخم سے پیپ نکالنے تک ہی محدود تھا۔ مسلمان اطبا نے اس شعبے میں کئی اضافے کیے ، یوں آنکھوں کے موتیا، معدے کے مسائل اور گردوں کی پتھری کا علاج بھی ہونے لگا۔ لیکن جراحی آلات کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر علاج غذا اور محلولات سے کیا جاتا تھا۔ایسے میں قرطبہ (اندلس) کے قابل قدر طبیب ابو القاسم الزہراوی نے جراحی آلات تیار کیے۔ انہوں نے سرجری کے اپنے طریقہ کار کے ذریعے مشرق اور مغرب کے طب پر نمایاں اثر ڈالا اور اہل یورپ کو سرجری کے فن سے روشناس کرایا۔
سرجری کا بانی ابو قاسم الزہراوی936 تا 1013ء -Abulcasis
ابولقاسم زہراوی کو اہل مغرب اپنی زبان میں ابوالکاس Abulcasis یا الزہراویس Zahravius کے نام سے پکارتے ہیں، ان کا اصل نام خلف ابن عباس انصاری اور کنیت ابوالقاسم تھی۔ ابوالقاسم کے آباء واجداد مدینہ منورہ کے انصار قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ مسلم افواج کے ساتھ اندلس تشریف لائے اور یہیں آباد ہو گئے۔
اندلس کے حکمران عبدالرحمن الناصر نے اپنی ملکہ زہرہ کے نام پر قرطبہ کے نزدیک ایک شہر الزہرا بسایا تھا۔ ابولقاسم اسی شہر میں 327ھ بمطابق 936ء کو پیدا ہوئے ۔ اس شہر کی مناسبت سے ابوالقاسم کے نام کے ساتھ الزہراوی لکھا جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب اندلس سائنسی علوم کی تحقیقات کے لیے زریں عہد Golden Age مانا جاتا تھا۔ اندلس کا دارالسلطنت قرطبہ اپنی عظمت کے اوج پر پہنچا ہوا تھا۔ ابو القاسم کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت ہی کم معلومات ملتی ہیں، لیکن ان کی جراحتی مہارت بے مثال تھی۔ اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ قرطبہ کے شاہی شفاخانے کے ساتھ منسلک ہو گئے اور یہاں انہوں نے اس عملی تحقیق کا آغاز کیا جس نے تھوڑے ہی عرصے میں خود کو جدید علم الجراحت کا موجد اور اپنے زمانے کا سب سے بڑا سر جن بنادیا۔ وہ اندلس کے خلیفہ کے طبیب خاص اور قرطبہ کے سب سے بڑے ہسپتال کے چیف سر جن بن گئے۔ ابو القاسم الزہراوی نے فکر اور تجربے کی کسوٹی پر اپنے وسیع مطالعہ سے نتائج اخذ کیے اور بیماریوں کی دو اقسام بتائیں۔ الزہراوی کے مطابق بعض بیماریوں کا علاج دوا ہے جب کہ بعض کا علاج سرجری سے ہونا چاہیے۔ الزہراوی نے مختلف امراض کے علاج کے لیے کئی آلات اور سرجری کے اوزار تیار کیے اور ان کی تفصیل بھی لکھی جن سے بعد میں دنیا نے فائد ماٹھایا۔ ابو القاسم الزہراوی آپریشن کرنے کے لیے اپنی حکمرانی میں جو نئے نئے آلات بنواتے تھے ، ان سب کی تفصیل وہ لکھتے بھی رہتے تھے، یہاں تک کہ ان کے
ابو القاسم الزہراوی کی کتاب کا مکمل نام “التعريف لمن عجز عن التالیف“ ہے طبی علوم کا مجموعہ اس کے لیے جو لکھنے سے قاصر ہے“۔ مختصراً اس کتاب کو تعریف کہا جاتا ہے۔ تھیں جلدوں پر مشتمل یہ کتاب دو موضوعات طب اور جراحت پر مشتمل ہے۔ اس کا سب سے اہم حصہ جراحت ہے، یہ کتاب جراحت پر اعلیٰ معیار کی پہلی مفصل تصنیف تھی۔ الزہروی کو کتاب التصریف کو مکمل ہونے میں 50 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ اس کتاب میں سر سے پاؤں تک 325 امراض کی علامات اور ان کے علاج اور 200 سے زائد جراحی آلات کا ذکر ہے۔ جراحت کے متعلق جلد تین بڑے حصوں میں تقسیم ہے۔ اس کا پہلا حصہ آگ سےداغنے Cupping اور پچھنے لگانے Cautery کے بارے میں ہے جو ازمنہ وسطیٰ تک بعض امراض کے علاج میں برتاجاتا تھا۔ دوسرے اور تیسرے حصے میں عملی جراحت Surgery کا بیان ہے۔ یہی اس کتاب سے اہم ترین حصہ ہے۔ اس میں دانت نکالنے، ٹوٹی ہڈی کو جوڑنے، اترے ہوئے جوڑوں کو چڑھانے، آنکھوں کا آپریشن کرنے ، حلق کا کوا کاٹنے ، مثانے میں سے پتھری نکالنے ، بواسیر کے مسوں کو کاٹنے ماؤف عضو کو کاٹنے اورہر قسم کے پھوڑوں کو چیرنے کی تفصیلات دی گئی ہیں۔کتاب کے ایک حصے میں پیدائش سے پہلے ماں کے پیٹ میں بچے کی مختلف حالتیں دکھائی گئی ہیں اور مشکل صورتوں میں آلات کے ذریعے وضع حمل کرانے اور بچے کے رحم میں مر جانے کی حالت میں جنین کو باہر نکالنے کے طریقے تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ ان آپریشن کے لیے جن آلات کی ضرورت ہوتی ہے ، ان کی تشریح
قلم سے عملی سرجری پر ایک یگانہ روزگار تصنیف ظہور میں آگئی۔ یہ کتاب پانچ صدیوں تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں سرجری کی واحد معیاری کتاب کے طور پر داخل درس رہی۔الزہراوی ایک ماہر جراح تھے، انہوں نے جنرل سرجری، بچوں کی سرجری، گائنا کولوجی، آنکھ کان حلق ENT کی سرجری، آرتھو پیڈک اور ڈینٹل سرجری کے آلات بنائے اور ان کا استعمال بھی کیا، انہوں نےسرجری میں کئی اختراعات بھی کیں۔جرنل آپریٹیو سرجریالزہراوی نے انسانی تاریخ میں پہلی بار جراحی کے ڈریسنگز میں زخم سے بہتے خون کے اخراج کو روکنے کے لیے کاٹن یعنی کپاس کی روٹی کا استعمال کیا۔ اس کے علاوہ آپریشن روم میں سرجری کے وقت کپڑوں کو خون کے دھبوں سے بچانے کے لیے انہوں نے گاؤن بھی پہنا۔ زہراوی نے مریض کو بے ہوش کرنے کے لیے Anaesthetic Sponge بنایا جو افیون، بیلا ڈونا اور دھتورا میں بھگویا ہوتا تھا۔ استعمال سے پہلے، اسے پانی میں بھگویا جاتا اور ناک پرلگایا جاتا۔ یہ اسپینج ہلکی نیند پیدا کرتا تھا۔زہراوی نے مختلف قسم کے زخموں، آبلوں، پھوڑوں اور پھنسیوں کی وجوہات اور علاج کو تفصیلسے بیان کیا۔ انہوں نے میدان جنگ میں کام آنے والی ادویات Military Medicine اور زخموں کی سرجری کے آلات اور طریقہ علاج بتائے۔ الزہراوی نے زخموں کو آگ سے داغنے Cupping اور پچھنے لگانے Cautery کے طریقے بھی بتائے، جس میں ایک دھات کے ٹکڑے۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ستمبر2024