Daily Roshni News

روحانی علوم میں تین اصطلاحیں بہت اہمیت کی حامل ہیں

روحانی علوم میں تین اصطلاحیں بہت اہمیت کی حامل ہیں

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )روحانی علوم میں تین اصطلاحیں بہت اہمیت کی حامل ہیں راہ سلوک کے مسافر کےلئے اس کا سمجھنا بہت ضروری ہے

1۔ تصور شیخ یا فنافی الشیخ

2۔ تصور رسول یا فنا فی الرسول

3۔ تصور اللہ یا فنا فی اللہ

یہ تینوں اصطلاحات،  مقامات اور طرزیں اپنے اندر بہت ذیادہ  تفکر کی متقاضی ہیں اور معنی و مفہوم کے اعتبار سے وسعت و گہرائی رکھتیں ہیں ۔ دراصل یہ نصاب(syllabus) ہے جو اللہ تعالٰی کی صفات کے علوم پر مشتمل ہے اس کی مختصرا تشریح پیش کی جارہی ہے

1۔ تصور شیخ یا فنا فی الشیخ کی اصطلاح میں “شیخ ” ایک صلاحیت یا کوالیفیکیشن ہے جس طرح ڈاکٹر، انجینئر،  وکیل،  مصور، بڑھئی ایک صلاحیت اور علم ہے اور علم کی بنا پر اس کو کوئی نام،  عہدہ،  مرتبے کی بنا پر مخاطب کیا جاتا ہے بلکل اسی طرح اگر کوئی شخص توحید افعالی اور توحید صفاتی کا علم رکھتا ہو تو اس کو روحانی علوم میں ” شیخ ” کے نام سے پکارا جاتا ہے، جب ہم لفظ “ڈاکٹر یا انجینئر” بولتے ہیں تو اصل میں ہمارے تصور یا ذہن میں ایک صلاحیت یا علم پر عبور رکھنے والا شخص ہوتا ہے اسکی شکل و صورت،  خدوخال اور نقش ونگار نہیں ہوتے،  روحانی سالک اپنے تصور یا ذہن میں شیخ کی صلاحیت  اللہ تعالٰی کی توحید افعالی اور توحید صفاتی کو سامنے رکھ کر اپنے شیخ کی طرف متوجہ یا مراقب ہوتا ہے اسکے ذہن کے اندر  اللہ تعالٰی کی صفات کا حصول ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالٰی کا علم اپنے شیخ کے ذریعے حاصل کرتا ہے بلکہ اسی طرح جس طرح کوئی مادی علوم کا طالب علم اپنے استاد کی صلاحیت یا علم کو سامنے رکھ کر اس کی شاگردی کو اختیار کرتا ہے اور وہ استاد کی شفقت و محبت اور اپنی توجہ، دلچسپی اور رحجانات سے علم  سیکھ کر اس علم یا صلاحیت کو اپنے اندر منتقل کر لیتا ہے، توحیدی افعالی اور توحید صفاتی کے علوم کا حامل شیخ اپنے مرید،  شاگرد یا سالک کے اندر اس بات کا مشاہدہ کراتا ہے کہ” توحید افعالی سے مراد کائنات کے اندر جتنے بھی افعال اور حرکات جو ہمیں الگ الگ  نظر آتے ہیں اصل میں ایک ہی ہستی کی صفت ” حی” سے ہے زندگی اور زندگی کی تمام طرزیں اور تقاضوں کو ایک ہی ذات چلا رہی ہے جب سالک اس مقام اور حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس کے تمام روحانی لطائف روشن ہوجاتے ہیں یعنی کائنات کے نزول و صعود کا تمام ریکارڈ اس پر واضح ہوجاتا ہے تو وہ ” توحید افعالی ” کی تعلیم مکمل کرلیتا ہے،  کائنات کی تمام اشیاء  مٹی، پانی،  آگ، یوا، روشنی،  وغیرہ کے اندر صفات الگ الگ نظر آتیں ہیں جبکہ تمام صفات اصل میں ایک ہی ہیں اور ایک ہی مقام سے نزول کر رہی ہیں، انسانی نگاہ اس کو اپنے  منقسم حواس کی بنا پر کثرت میں الگ الگ دیکھتی ہے،  سالک کے ریاضت و مجاہدات اور عبادات میں ارتکاز توجہ سے کائنات کے تمام اجزاء میں وہ ایک ہی ہستی کا مشاہدہ کرتا ہے یہ علم اور مشاہدہ اسکی ” توحید صفاتی” کی تعلیمات کو مکمل کر دیتا ہے جس سے یہی سالک ” شیخ ” کے مرتبہ پر فائز ہوجاتا ہے، چونکہ شیخ ایک صلاحیت یا کوالیفیکیشن ہے اس کا حامل ” فنافی الشیخ ” کہلاتا ہے، عام فہم میں اس بات کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی بچہ میٹرک پاس ہے تو ” فنا فی المیثرک” کہلائے گا،  اسی طرح میڈیکل کی تعلیم کا حامل فنا فی الڈاکٹری،  انجینئرنگ کا حامل فنا فی الانجینئرنگ،  مصوری کا حامل فنا فی المصوری ہوگا۔ اگر کوئی شخص توحیدافعالی اور توحید صفاتی کا حامل نہیں تو وہ کسی بھی طرح شیخ کہلانےکا مستحق نہیں، بلکل اسی طرح  میڈیکل کی تعلیم کے بغیر  کوئی ڈاکٹر اور انجینئرنگ کی تعلیم کے بغیر کوئی انجینئر نہی کہلا سکتا،  روحانی سالک علوم کے حصول میں اپنے شیخ کے اندر اتنا زیادہ ارتکاز کرتا ہے کے ک شیخ کے جسمانی خدوخال،  نقش ونگار،  عادات و اطوار،  طبیعت و رحجانات بھی منتقل ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ مرشد اور مرید دونوں کا روح،  ذہن اور جسم ایک ہوجاتا ہے یہ “فنائیت” کا بلند ترین درجہ سمجھا جاتا ہے جہاں دوئی نہیں رہتی، انتہا درجے کا انہماک و ارتکاز و مراقبہ بندے کو دربار رسالت تک رسائی دلا دیتا ہے ۔

جس طرح شیخ ایک صلاحیت یا کوالیفیکیشن ہے اسی طرح تصور رسول یا فنا فی الرسول بھی اللہ کی ذات و صفات کے علوم کا مرتبہ ومقام ہے،  تصور رسول کے نصاب میں مندرجہ ذیل علوم کے مدارج میں گزرنا ہوتا ہے

1۔ توحید الہی

2۔ توحید ذاتی

3۔ توحید  حق

4۔ توحید جمالی

5۔ توحید جلالی

رسالت اصل میں توحید کے وہ اسباق یا کورس ہیں جو کائنات کے اندر اللہ تعالٰی کی مشیت و رضا پر  مشتمل ہیں،  ان کا  مختصرا تعارف پیش کیا جارہا ہے

1۔ توحید الہیہ میں سالک کے مشاہدے میں یہ بات اجاتی ہے کہ کائنات کے اندر ایک ہی معبود ذات ہے

2۔ توحید ذاتی میں اپنی ذات کے اندر باہر ایک ہی ہستی کا مشاہدہ کرتا ہے

3۔ توحید حق کے اندر وہ اللہ تعالٰی کی ذات و صفات کو عین الحق الیقین میں  ایک ہی دیکھتا ہے

4۔ توحید جمالی میں وہ اللہ کے تخلیقی نظام میں انوار و تجلیات کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو واحدانیت کے درجے میں دیکھتا ہے

5۔ توحید جلالی میں کائنات کے اندر ایک ہی طاقت کے اثرات کو اپنی روح کے اندر جذب کرتا ہے۔

ان صلاحیتوں کے حامل بندے کو  فنا الرسول کے علوم کے پر فائز سمجھا جاتا ہے ،قارئین کے ذہن میں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے تصور رسول یا فنا فی الرسول کے علوم الگ ہیں اور اللہ کی طرف سے رسول کا معبوث ہونا الگ مرتبہ ومقام ہے، حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ تعالٰی کے اخری نبی اور رسول ہیں ان کے  بعد نبوت و رسالت کے عہدے کی معبوثیت ختم کردی گئی ہے البتہ علم رسالت و نبوت کے علوم قرآن مجید میں بیان کر دیئے گئے ہیں، علم نبوت ورسالت کا منبع حضور نبی کریم محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات برکات واقدس ہے فنا فی الرسول کے علوم سے سالک کے اندر شریعت اور اسوہء حسنہ کے اوصاف پیدا ہوجاتے ہیں اور اپنی مادی زندگی اس کے مطابق ڈھال لیتا ہے،

تصور اللہ یا فنا فی اللہ کے علوم میں مندرجہ ذیل اسباق واضح کیے گئے ہیں

1۔ علم ذات

2۔ علم صفات

3۔ علم الاسماء

4۔ علم الکتاب

5۔ علم لدنی

6۔ علم القلم

7۔ علم الوح

یہ  تمام علوم قرآن مجید میں تفصیلی بیان کیے گئے ہیں

روحانی علوم کی بنیاد توحید ہے، اللہ تعالٰی کی واحدانیت و احدیت  یا  توحید کو علماء باطن نے تئیس 23 درجات میں بیان کیا ہے ہر درجہ یا سبق لامتناہی وسعتوں اور گہرائیوں کا حامل ہے،  چونکہ کائنات اللہ تعالٰی کا علم ہے اور انسان کو کل اشیاء کے اسماء کا علم منتقل کر دیا گیا ہے فنا فی الرسول کے مدارج طے کرنے کے بعد سالک اللہ تعالٰی کے ان علوم کی طرف سفر کرتا ہے جو اللہ تعالٰی نے اپنی مشیئت میں انسان کے لئے مخصوص فرمائیں ہیں،  اللہ تعالٰی کی ذات و صفات لامتناہی وسعتوں اور گہرائیوں کی حامل ہے اور کوئی بھی انسان،  جن یا  فرشتہ اس کا احاطہ نہیں کرسکتا، لیکن وہ علوم جو اللہ تعالٰی نے انسان کے لئے مخصوص فرمائیں ہیں اگر کوئی بندہ ان کو حاصل کر لے تو روحانی اصلاح میں اس  بندے کو فنا فی اللہ کہا جاتا ہے، یہ وہ کوالیفیکیشن، کلاس، کورس، نصاب،  درجہ یا مرتبہ ومقام ہے جو  بندے اور اللہ کے درمیان رازونیاز ہیں،  قرآن مجید کی  سورہ  آل عمران میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں

لا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَهُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ-وَهُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(103)

کوئی آنکھ اس کا ادراک نہیں کرسکتی، اور وہ خود آنکھوں کا ادراک ہے اور وہی لطیف و خبیر ہے۔

روحانی علوم کے طالب یہ بات جانتے ہیں کہ اللہ کی طرف سفر دراصل اپنی ذات سمیت ہر مرتبہ ومقام اور درجات کو فنا کرکے اس کی ذات کے اندر اس درجے پر پہنچنا ہے کہ وہ خود کہے

یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ(27)ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً(28)

اے اطمینان والی جان۔اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آ کہ تو اس سے راضی ہووہ تجھ سے راضی ہو۔

پوسٹ کا اختتام امام سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی اس رباعی سے کیا جاتا ہے

ساقی کا کرم ہے میں کہاں کا مے نوش

مجھ ایسے ہزار ہا کھڑے ہیں خاموش

مے  خوار  عظیم  برخیاء حاضر  ہے

افلاک  سے  آ رہی  ہے  آواز  سروش

Loading