میرا درد !
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میری شادی ہوئی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعاء کی کہ میرے رب پہلی اولاد بیٹی عطاء کر دیجئے۔ اس دعاء کے پیچھے میری اس محرومی کا اثر تھا جو بہن کے نہ ہونے سے تھی۔ دعاء قبول تو ہوگئی مگر بچی چند گھنٹے بھی نہ جی سکی۔ ایک بار پھر وہی دعاء شروع کردی مگر ولادت صلاح الدین کی ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد پھر بیٹی مانگنی شروع کردی مگر طارق کی پیدائش ہوئی۔ پھر سات سال کا وقفہ آیا لیکن دعاء اب بھی وہی تھی، اس بار وقاص تشریف لے آئے۔ وقاص کی پیدائش کراچی میں ہوئی تھی اور میں اسلام آباد میں تھا۔ ایک ماہ بعد میری فیملی کراچی سے آنے لگی تو فلائٹ سے ایک روز قبل میری والدہ محترمہ کی کال آئی۔ انہوں نے فرمایا، تم عالم ہو یہ جانتے ہوگےکہ بیٹیاں اور بیٹے دینا اللہ کا اختیار ہے، اس بار بھی لڑکا ہوا ہے تو اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں، میری بہو سے نہ لڑنا۔ میں نے ہنس کر عرض کیا، اس میں لڑنے والی تو کوئی بات ہی نہیں، میں بیٹی اپنی اہلیہ سے نہیں اللہ سے مانگتا آیا ہوں، اگر اسکو منظور نہیں تو میں اس کی رضاء پر راضی ہوں۔ حد یہ ہوئی کہ اگلے روز فلائٹ سے دو تین گھنٹے قبل میرے بچوں کی نانی محترمہ کی بھی اسی طرح کی کال آگئی، ان سے بھی وہی عرض کیا جو والدہ سے کیا تھا۔ فیملی اسلام آباد ائیرپورٹ کے ارائیول لاؤنچ سے باہر آئی تو نومولود وقاص اپنے ماموں کی گود میں تھا، میں نے وقاص کو گود میں لینے کے بجائے سامان اٹھا لیا اور اس خیال سے اٹھایا کہ یہ زیادہ بھاری ہے تو خود اٹھا لیتا ہوں۔ بس جی یہ حرکت گلے ہی پڑگئی، میرے اس گڈ جسچر کا مطلب یہ لے لیا گیا کہ مجھے وقاص میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس تصور کو توڑنے کے لئے وقاص کو خود سے ایسا قریب کیا کہ آج تک ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اگر آپ میرے بھائیوں سے پوچھیں تو وہ آپکو گواہی دینگے کہ میں انکے بچوں سے بے تکلف نہیں ہوتا لیکن بچیوں کے ساتھ تو میں بچہ بن جاتا ہوں۔ بچیوں کی پیدائش پر کڑھنے والوں کو اگر میں بہن اور بیٹی کی محرومی سے پیدا ہونے والا اپنا درد دکھا پاؤں تو بخدا آپ کو مجھ پر ترس آجائے۔