یار ستم گر
تحریر۔۔۔اریج شاہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ یار ستم گر۔۔۔ تحریر۔۔۔اریج شاہ)بی بی جی اگر صاحب جی کو پتہ چل گیا۔ کہ آپ یہاں آئی ہیں تو وہ مجھے نوکری سے نکال دیں گے ڈرائیور درانی ہاؤس کے باہر گاڑی روکتے ہوئے اسے کہنے لگا تھا۔ جبکہ وہ گاڑی سے باہر نکلتی اس کی بات سن کر گھر کو دیکھنے لگی ۔
آپ فکر نہ کریں بھیا میں کسی کو بھی پتہ نہیں چلنے دوں گی آپ بالکل بے فکر رہیں ۔کسی کو پتہ نہیں چلے گا
اور میں بس اپنی بہن کو دیکھنے یہاں آئی ہوں میں بس پانچ منٹ میں واپس آ جاؤں گی آپ کو یہاں سے جانے کی ضرورت نہیں زمش اس سے کہتے ہوئے تیزی سے درانی ہاؤس کی طرف بڑھی تھی وہ مر کر بھی یہاں کبھی قدم نہ رکھنے والی تھی۔ لیکن یہ سوچ کر کہ آئرہ کیسی ہوگی اس کی طبیعت ٹھیک بھی ہوگی یا نہیں وہ بے قرار ہو کر یہاں آئی تھی وہ اتنے سالوں سے اپنی بہن کو ڈھونڈ رہی تھی ۔ اس کی بہن نے بے شک اس کے بابا کے ساتھ بہت غلط کیا تھا ۔لیکن وہ مجبور ہو گئی تھی اسے آئرا کی پرواہ تھی اسے یہاں آنا تھا ۔اپنی بہن کی حیرت جاننی تھی۔اسے سکون نہیں تھا اتنے وقت سے۔۔۔”
وہ صرف ایک دفعہ اسے دیکھنا چاہتی تھی ایک دفعہ اس سے ملنا چاہتی تھی اگر یہ ضروری نہ ہوتا تو شاید وہ یہاں نہ آتی ۔
اس نے اندر قدم رکھا تو سامنے اسے امامہ بیگم بیٹھی نظر آئی تھیں ۔
اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے انہیں دیکھا وہ بھی اسے دیکھ چکی تھیں۔اسے آتے دیکھ کر وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئیں یہ لڑکی یہاں آئی تھی یعنی کہ برلاس خان بھی یہاں آیا تھا ۔لیکن برلاس خان اتنی بےعزتی اتنی توہین کے بعد دوبارہ یہاں قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔انہیں یقین تھا وہ۔یہاں نہیں آئے گا۔ وہ الجھتے ہوئے اسے دیکھنے لگیں۔
جب کہ زمش نے اندر آ کر انہیں بڑے احترام سے سلام کر دیا جبکہ پیچھے گھر کو دیکھنے لگی یقینا اس کی نگاہیں اپنی بہن کو ڈھونڈ رہی تھی یا پھر الوینا کو الوینا کی بھی تو کزن تھی ۔وہ۔یہاں الوینا۔کےلیے بھی آ سکتی تھی۔۔۔۔”
اس کی سگی پھپھو کی بیٹی تھی الوینا یقینا وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی تلاش میں تھی ۔بے شک وہ برلاس خان کی بیٹی تھی لیکن وہ برلاس خان جیسی ہرگز نہیں تھی انہیں یہ چھوٹی سی لڑکی پہلی ہی نظر میں بے تحاشہ پسند آئی تھی انہوں نے مسکرا کر آگے بڑھتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگایا تو زمش نے زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوئے اپنا آپ چھڑا لیا تھا کیونکہ تھی تو وہ درانی خاندان کی عورت اور ویسے بھی وہ درانی خاندان کی کسی بھی انسان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی تھی یہ تو بہن کی محبت تھی خون کا کھچاؤ تھا جو اسے یہاں تک لے کر آیا تھا ۔
مجھے اپنی بہن سے ملنا ہے آپ بتا سکتی ہیں کہ میری بہن کہاں ہے اس نے کافی سختی سے پوچھا تھا اب بہن الوینہ بھی ہو سکتی تھی اور آئرہ بھی ۔نہ جانے وہ کس کے بابت پوچھ رہی تھی ۔
الوینہ تو بیٹا رائک کے ساتھ صبح باہر نکل گئی تھی نہ جانے کہاں گئی ہے اور آئرہ کمرے میں ہے اگر کہتی ہو تو میں بلا دیتی ہوں وہ اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولیں تو زمش نے کوئی جواب نہیں دیا تھا جبکہ وہ مسکرا کر اس کے قریب سے اٹھیں ۔
میں ایسا کرتی ہوں آئرہ کو بلا کر لاتی ہوں تم اس کے پاس بیٹھنا وہ تھوڑی دیر پہلے ہی اپنے کمرے میں گئی تھی وہ اس سے کہتے ہوئے آئرہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھیں۔جب کہ وہ بنا کوئی بھی جواب دیے ان کے لوٹ کرآنے کا انتظار کرنے لگے۔
اس کا ارادہ جلد سے جلد یہاں سے نکلنے کا تھا کیونکہ یہاں پرعرزک بھی تھا اور وہ عرزک کو دیکھنا تک نہیں چاہتی تھی بس وہ اپنی بہن سے مل کر یہاں سے جانا چاہتی تھی۔
°°°°°°°
ازبک تیزی سے اس کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔آئرہ سامنے ہی آئینے کے پاس کھڑی اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی دروازے کو ساتھ لگاتے ہوئے ازبک تیزی سے اس کے پاس آتا اسے کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیے بغیر اسے اپنی باہوں میں قید کر چکا تھا ۔
اس کے یوں اچانک کمرے میں داخل ہونے پر پہلے تو آئرہ پریشان ہوئی تھی۔ جبکہ اس کے یوں پاس آ کر یوں اپنی باہوں میں قید کر کے اسے خود کے قریب کرنے پرآئرہ تو مانو بوکھلا کرگئی تھی ۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی بھی حرکت کر پاتی ازبک کے بھیگے لبوں کا لمس اپنی گردن پر بکھرتے محسوس کر کے اس کے دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔ جبکہ ازبک کی جسارتیں بھرنے لگی تھیں۔ اسے اپنے ساتھ لگائے وہ دیوانوں کی طرح اس کی گردن کو چومتے ہوئے، اسے ایک جھٹکے سے اپنی طرف موڑ کا اس کے چہرے کو تھامتا اس کے لبوں پر جھک گیا تھا ۔
وہ اسے بنا کچھ بھی کہنے سننے کا موقع دیے اس کے لبوں کو چومنے لگا تھا اس کے انداز میں بلا کی شدت تھی کبھی وہ اس کے اوپری لب کو اپنے لبوں میں قید کرتا تو کبھی نچلے لب کو وہ اسے بولنے کا موقع ہی نہیں دے رہا تھا۔ جب کہ جس انداز میں اس نے اسے اپنی پناہوں میں قیدکر رکھا ہوا تھا وہ کچھ کہنے سننے کے قابل بچی ہی نہیں تھی اس کی دھڑکنوں میں جیسے ڈھول سے بجنے لگے تھے ۔
ازبک درانی اسے خود سے لگائے پوری طرح سے اس کے نازک وجود کو اپنے سینے میں بھینچتا جا رہا تھا اور پھر ایک جھٹکے سے اسے بیڈ پر گراتے ہوئے وہ اس سے بنا کچھ بھی کہنے کا موقع دیے اس کے لبوں کو اپنے سخت لبوں کی قید میں لے گیا تھا۔اس کی گرفت میں اتنی سختی تھی کہ آئرہ کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہونے لگیں ۔
سوری۔۔۔ سوری ۔میں زیادہ جذباتی ہو گیا۔اب نرمی سے کروں گا آئی پرامس تمہاری سانسیں بہت عزیز ہیں مجھے۔۔۔۔”اس کی اپنی شرٹ پر مٹھی کی گرفت تیز ہونے پر وہ اس کی نازک جان کو مد نظر رکھتے ہوئے لبوں کو بخشتا اسے سوری بولتے ہوئے اس کی گردن پر اپنی شدتوں کے نشان بکھیرنے لگا تھا۔
وہ اس کی باہوں میں اچھی خاصی بوکھلا گئی تھی۔ وہ اس کی جان چھوڑنے کو تیار ہی نہیں تھا کبھی وہ اس کی گردن کو اپنے لبوں سے مہکانے لگتا تو کبھی اس کے لبوں پر ہی اپنی گرفت اتنی تنگ کر لیتاکہ وہ سانس تک نہ لے پاتی۔
خان۔۔۔۔۔”اچانک اپنے کندھے سے شرٹ سرکتی محسوس کر کے وہ جی جان سے کانپتی اسے پکارنے لگی تھی ۔
خان کی جان بھی قربان ۔۔۔۔۔”وہ اوپر کو ہوتا ایک دفعہ پھر سے اس کی سانسوں کو قید کرتے ہوئے محبت پاش لہجے میں بولتا اپنے ہاتھوں کی بے باکیاں بڑھانے لگا تھا ۔
یہ سزا ہے میری جان مجھے جگائے بغیر کمرے سے نکلنے کی ۔وہ اس کے لبوں کا ایک طویل بوسہ لیتا گہرا سانس لیتا۔ اس کے چہرے کو دیکھتا دلکشی سے مسکرایا تھا اور ایک دفعہ پھر سے اپنے بوسوں کی لا تعداد شدتیں اس کے چہرے پر بھی بکھیرزے لگا ۔
اور یہ سزا ہے میرے بار بار پکارنے کا سن کر بھی جواب نہ دینے کی وہ اس پر اپنی شدتیں لٹاتا اسے پوری طرح سے خود میں قید کرتا جا رہا تھا ۔جب کہ آئرہ کی تو مانو حالت خراب ہونے لگی تھی وہ اتنی بے باکی سے اسے چھو رہا تھا۔کہ آئرہ کو اس کے اگلے قدم سے خوف آنے لگا تھا وہ مزید اس کے ہاتھوں کسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتی تھی وہ ایک دفعہ بہک چکی تھی بار بار نہیں بہکنا چاہتی تھی۔ وہ ابھی تک اپنی صبح والی غلطی پر پچھتا رہی تھی جب وہ ایک دفعہ پھر سے اس کی جان کو مشکل میں ڈالنے لگا ۔
آئرہ اسے روکنا چاہتی تھی کہ لیکن وہ رکنے کو تیار ہی نہیں تھا۔ وہ تو مرضی کر رہا تھا جو چاہتا تھا وہ کر رہا تھا اس کی صرف ایک غلطی اسے ہر طرح کے گلٹ سے نکال چکی تھی۔وہ ہر طرح کے دوریاں مٹا چکا تھا ۔ایک دیوار جو ان دونوں میں قائم ہو گئی تھی اس دیوار پر آئرہ کے ایک قدم نے درار ڈالی تھی تو ازبک نے فاصلے مٹا کر وہ دیوار ہی گرا دی۔ وہ تو پھر سے وہی خان بن گیا تھا جو اسے اپنی باہوں میں قید رکھنا اپنا حق سمجھتا تھا ۔
اور اس وقت بھی وہ پورے استحقاق سے اس کی گردن اور کندھوں پر اپنے لبوں اور دانتوں کی سختیاں نچھاور کر رہا تھا ۔آئرہ کو کچھ سمجھ نہ آیا تو وہ اسے خود سے دور ہٹانے کی کوشش کرنے لگی تھی وہ اس کی باہوں میں اس طرح سے قید تھی کہ آواز تک نکالنے کی ہمت نہیں ہو پا رہی تھی اس میں۔ وہ پوری طرح سے جذبات میں بہکتا سارے پردے ہٹا دینے کو تھا وہ اس وقت اس کی قربت کے حصول میں دیوانہ سا ہو رہا تھا ۔
وصل کے یہ لمحات آئرہ کو بھی بری طرح سے کنفیوز کر رہے تھے وہ جو نہیں چاہتی تھی وہی ہو رہا تھا وہ چاہ کر بھی اس شخص کو خود سے دور نہیں کر پا رہی تھی نہ جانے اس انسان کی قربت میں ایسا کون سا جادو تھا ۔
وہ اس پر چھاتا چلا جا رہا تھا ۔اور وہ اسے روکنے کی ہمت خود میں پاتی ہی نہیں تھی اس کے دوپٹے کو کھینچ کر دور پھینکتے ہوئے اس نے ایک لمحہ اس کے اوپر سے اٹھتے ہوئے اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے کے بجائے کھینچ کر توڑتے ہوئے اپنی شرٹ کو دور پھینکا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اٹھتی وہ ایک دفعہ پھر سے اس کے بازوں کو قید کرتا اس پر جھک جھکا تھا ۔
خان۔۔۔۔۔۔”وہ بےبسی کی انتہا پر اسے پکار رہی تھی ۔
خان کے دل کی دھڑکن ۔۔۔”ابھی کچھ مت کہو تمہارا خان اس وقت کچھ بھی سننے کی کنڈیشن میں نہیں ہے ۔وہ اس کے لبوں کو قید کرتا اس پر سایہ فگن ہوتا اسے بیڈ پر لٹا چکا تھا اس کی جسارتیں بڑھتی جا رہی تھی اور آئرہ کو لگا جیسے وہ ختم ہو جائے گی ۔
وہ پوری طرح سے اس کے وجود میں مدہوش ہونے لگا تھا جب اچانک ہی دروازہ کھول کر کوئی اندر داخل ہوا وہ دونوں ہی بری طرح سے بوکھلا گئے تھے ۔
°°°°°°°°°
امامہ بیگم کے اچانک کمرہ کھول کر اندر آنے پر وہ دونوں ہی بکھلا گئے تھے ازبک تیزی سے اس کے قریب سے اٹھا تھا جبکہ آئرہ تو شرمندہ سی اپنی شرٹ درست کرتی انہیں دیکھ رہی تھی شرمندہ تو امامہ بیگم بھی ہو گئی تھیں۔ وہ تو اس کے کمرے میں جب چاہے تب آ رہی تھیں۔ انہیں تو ایسا کوئی وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ اس کے کمرے میں ازبک ہو گا اور پھر وہ اس کے اتنے قریب ہوگا۔
ایسی تو سوچ بھی وہ اپنے دماغ میں نہیں لا رہی تھیں۔ کیونکہ ان دونوں کا رشتہ بہت خراب چل رہا تھا ان دنوں ۔
وہ کچھ بھی کہے بغیر کمرے سے باہر نکل گئی تھیزن۔جبکہ آئرہ کا تو ہاتھ پیر کانپنے لگے تھے ۔
ریلیکس خاناں ریلیکس کیا ہو گیا ہے کچھ نہیں ہوا کیوں اپنے دھڑکینیں بڑھا رہی ہو میری جان کوئی قیامت نہیں آئی ۔وہ اس کے دل کی دھڑکن خطرناک حد تک تیز ہوتے پا کر اسے اپنے بے حد قریب کرتا اپنے سینے میں بھنیج گیا تھا جبکہ وہ اس کے سینے سے لگی اپنی دھڑکنوں پہ ہاتھ ہے رکھےگہرے گہرے سانس لے رہی تھی ۔
ایم سوری میری غلطی ہے تمہارے قریب آنے کی اتنی جلدی تھی کہ دروازہ تک بند نہیں کیا تم ریلیکس ہو جاؤ میں باہر جاتا ہوں ریلیکس کچھ نہیں ہوا وہ اس گھبرائے دیکھ کر اس کے چہرے کی زرد پڑتی رنگت پر اچھا سا پریشان ہوا تھا۔ اس کے ماتھے کو چومتے ہوئے وہ اسے یوں ہی اپنے ساتھ لگائے ریلیکس کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا لیکن وہ ضرورت سے زیادہ ہی ڈر گئی تھی ۔
چھو۔۔۔چھوڑیں۔۔۔پلیز۔۔۔۔”وہ اپنا آپ چراتی تیزی سے بیڈ سے اٹھتی زمین پر پڑا اپنا دوپٹہ اٹھا کر خود کو ریلیکس کرتی باہر جانے کے بجائے واش روم میں آگئی تھی دروازہ بند کرتے ہوئے وہ شیشے کے سامنے آ کر رکتے اپنا چہرہ دیکھنے لگی اس کا چہرہ بے تحاشہ سرخ ہو رہا تھا ازبک کی قربت کے کچھ ہی لمحوں میں وہ بری طرح سے وہ کھلا گئی تھی اس نے کچھ ہی لمحوں میں اس کی حالت خراب کر دی تھی ۔
جبکہ ازبک اپنی شرٹ اٹھا کر اپنے ٹوٹے ہوئے بٹن کو دیکھ رہا تھا اب یہ شرٹ پہن کر وہ باہر کیسے جاتا ۔
خاناں یار تم بعد میں شرما لینا باہر اؤ اور میری شرٹ کے بٹن سے لگا دو یار میں اس شرٹ میں باہر کیسے جاؤں گا ایک بھی بٹن سلامت نہیں بچا وہ مسکراتے ہوئے اسے بتا رہا تھا جبکہ اندر کھڑی آئرا اپنے چہرے پر پانی کے چھینتے پھینکتے خود کو نارمل کرنے کی کوشش میں اس کی بات سن کر اچھا خاصا غصہ ہو گئی ۔
میں نے آپ کا ٹھیکا نہیں لے رکھا خان صاحب جائیے یہاں سے اور ائندہ یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے وہ غصے سے چلائی تھی جبکہ اس کے چلانے پر اپنے لبوں پر آنے والی مسکراہٹ کو روک نہیں سکا ۔
خاناں تمہارے پاس نہیں آؤں گا تو پھر کس کے پاس جاؤں گا میری تو ساری راہیں ہی تم تک آتی ہیں منزل جو تم ہو خیر جا رہا ہوں باہر کوئی پوچھے گا تو کہہ دوں گا کہ میری بیوی بہت کام چور ہے ۔وہ اس کے لہجے کی کرواہٹ محسوس کیے بغیر اپنی شرٹ پہنتا کمرے سے نکل گیا تھا سامنے صوفے پر اسے دوسری طرف منہ کیے امامہ بیگم کے ساتھ ایک چھوٹی سی لڑکی نظر آئی تھی اس لڑکی کے بال کھلے ہوئے تھے جبکہ دوپٹے نامی کوئی بھی چیز اس نے لے نہیں رکھی تھی وہ کچھ لمحوں کے لیے سمجھ نہ سکا کہ وہ لڑکی کون ہے اور اسے دلچسپی بھی نہیں تھی فلحال تو اس کی ساری دلچسپی اس کی خاناں کے سرخ ہوتے چہرے پر تھی جسے یاد کر کر کے وہ مسکرا رہا تھا وہ بنا ان لوگوں پر زیادہ توجہ دیے اپنے کمرے کی طرف اوپر چلا گیا تھا ۔
ویسے تو اس کا ارادہ کمرے سے نکلنے کا بھی نہیں تھا لیکن وہ جانتا تھا اس کی خاناں فضول میں اپنی طبیعت خراب کر لے گی اسی لیے وہ اسے ریلیکس چھوڑ کر کمرے میں چلا گیا تھا۔ اور ویسے بھی آج رات سے وہ اسے واپس اپنے کمرے میں لانے کا ارادہ رکھتا تھا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس سے دور رہنے کا ساری دیواریں وہ توڑ چکا تھا سارے پردے گرا چکا تھا اب وہ اپنی خاناں کو اپنی باہوں میں رکھنے والا تھا اور دنیا کی کوئی طاقت اسے اپنی خاناں سے دور نہیں کر سکتی تھی۔
اج صبح اس کی خاناں خود اس کی باہوں میں بکھری تھی وہ اس کے وجود پر اپنی چھاپ چھوڑتا اپنی بے قراریاں اس پر عیاں کر گیا تھا جبکہ اس کی خاناں اس کی باہوں میں قید ہوتی اس کی محبتوں کو محسوس کرتی پوری طرح سے اس میں گم ہو گئی تھی ۔
اس کی محبت جیت گئی تھی وہ اپنی خاناں کو دوبارہ اپنے قریب لانے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔اور اب اس کامیابی کو وہ اس کے نازک سے وجود پر قابض ہو کر منانا چاہتا تھا ۔
وہ مدہوش سا اپنے کمرے میں واپس آتا فون پر آنے والی کال کی طرف متوجہ ہو گیا تھا یہ نمبر تو اس کے بہت پرانے کلاس فیلو کا تھا جو آج کل وکالت کے فرائض سرانجام دے رہا تھا ۔
°°°°°°°°
آئرہ فریش ہو کر باہر نکلی تو امامہ بیگم کے ساتھ اسے زمش نظر آئی تھی اسے پہچاننے میں اس نے ایک سیکنڈ نہ لگایا تھا ۔جبکہ زمش اسے دیکھ کر فورا اٹھ کر اس کے پاس آئی تھی اور بھاگتے ہوئے وہ اس کے گلے سے لگ گئی یہ بالکل غیر ارادی تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کبھی بھی اس طرح اس سے ملنے کے لیے آئے گی اور پھر اس کے انداز میں جو گرم جوشی تھی۔وہ بہت خوش تھی اس سے مل۔کر آئرہ کو بھی اس کے آنے کی خوشی تھی۔
ابھی یہ محسوس کیے اسے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ اس کی کوئی بہن بھی ہے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے مسکرا دی تھی وہ لڑکی اس سے زیادہ چھوٹی یقینا نہیں تھی ان دونوں کی عمر میں ایک ڈیڑھ سال کا ہی فرق ہوگا یقینا لیکن وہ بہت معصوم تھی بہت پیاری تھی ۔اور آئرہ وقت سے پہلے ضرورت سے زیادہ سمجھدار ہو چکی تھی۔ہاں کیونکہ شاید اس کے پاس کوئی نخرے اٹھانے والا باپ نہیں تھا اس کی ہر خواہش پوری کرنے والا اس کو سر انکھوں پر بٹھانے والا ۔۔۔۔۔”
اور اسے لگا نہیں تھا کہ وہ کبھی بھی دوبارہ اس سے مل پائے گی لیکن وہ اس کے لیے یہاں آئی تھی ۔
اسے بہت خوشی ہوئی تھی اس سے مل کر وہ کتنی ہی دیر سے اپنے ساتھ لگائے کھڑی رہی تھی جبکہ امامہ بیگم کو تو وہ بالکل لفٹ ہی نہیں کروا رہی تھی ۔ان کے پاس بیٹھتے ہوئے وہ کافی دیر کچھ نہ کچھ بولتی رہی لیکن اس نے آگے سے صرف ہوں ہاں میں ہی جواب دیا تھا امامہ بیگم ان دونوں کو کمرے میں دیکھ کر خاموشی سے نکل آئی تھیں وہ اسے بتا ہی نہ سکی کہ باہر زمش آئی ہوئی ہے اس سے ملنے کےلیے ۔
اور پھر وہ بھی ان دونوں کو اس طرح اتنے قریب دیکھ کر گھبرا گئےتھے۔ازبک تو کافی بے شرم اور ڈھیٹ تھا۔اس کا کہنا تھا کہ وہ اس کی بیوی ہے وہ جیسے چاہے اس کے ساتھ رہے ۔زیادہ شرمانے والے لوگ انہیں نہ دیکھیں خیر یہ تو تب کی بات ہے جب ان دونوں میں سب کچھ ٹھیک تھا لیکن آئرہ کے شرمندگی نے انہیں زیادہ دیر وہاں نہ رکنے دیا ۔ اسی لیے اس کمرے میں رکنا مناسب نہیں لگا۔
اب آ جاؤ یہاں کب سے بیٹھی ہوئی تمہارا انتظار کر رہی ہے زمش اس کے کھانے پینے کا کچھ انتظام کرو اسے بٹھاؤ تم کب سے بس اسے کھڑی اپنے ساتھ لگائے ہوئے ہو مہمان ہے وہ ہمارے گھر میں اماما بیگم نے آگے بڑھتے ہوئے اس سے کہا تھا ۔
جب اچانک ہی رائک اور الوینہ واپس آگئے تھے آج صبح ہی وہ اس سے ضد کر کے اس کے ساتھ بازار گئی تھی اور پھروہاں گاڑی میں بٹھا دیا یہ کہہ کر کہ وہ اکیلے اپنی شاپنگ کرے گی۔وہ تقریبا دو گھنٹے گاڑی میں بیٹھ کر اس کا انتظار کرتا رہا تھا کیونکہ وہاں بھی اس نے اسے قسم دے رکھی تھی کہ آپ میرے پیچھے نہیں ائیں گے اور نہ ہی آپ یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ میں نے کیا شاپنگ کی ہے وہ تو اس کی حرکتوں پر پریشان ہوا جا رہا تھا ۔
اور اب دو گھنٹے کے بعد وہ اسے گھر واپس لے کر ایا تو سامنے ہی زمش کو دیکھ کر وہ خوش ہو گئی تھی جب کہ زمش نے بھی کافی خوشی سے اس سے ملتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگایا وہ تینوں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھی باتیں کرتے وہیں باہر آ کر بیٹھ گئی تھیں۔جب درخنے میں بھی ان کو جوائن کر لیا ۔
جسے دیکھ کر زمش کا موڈ خراب ہونے لگا یہ تو اس کی بہن کی سوتن تھی اور کیسے بات بات میں آئرہ کو مخاطب کر رہی تھی کبھی وہ اس کا ہاتھ تھام لیتی جبکہ آئرہ کے چہرے پر کسی طرح کی ناگواری نہیں تھی وہ اس کی حرکتوں کو انجوائے کر رہی تھی ۔
جب اچانک ہی اس نے اوپر کی طرف سے اشارہ پایا تھا ۔
مجھے نا اوپر جانا ہے مجھے ایک کام ہے میں وہ کام کر کے آتی ہوں درخنے اچانک سے اٹھی تھی جبکہ اوپر اسے کیا کام تھا یہ کوئی بھی سمجھ نہیں پایا تھا اس کو تو کمرہ بھی نیچے والا دیا گیا تھا وہ ان کی کوئی بھی بات سنیں بغیر اوپر چلی گئی جب کے الوینہ نے نوٹ کیا تھا وہ صرف اوپر نہیں گئی تھی بلکہ وہ عرزک کے کمرے میں بھی گئی تھی ۔
°°°°°°°°°
میرا پیارا لالا سب سے پیارا لالا کیوں اشارے کر رہے تھے مجھے اوپر آنے کے وہ کمرے میں آتی عرزک سے پوچھنے لگی تھی جو بیڈ پر بیٹا مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا ۔
لالا کی لالی نیچے تمہاری بھابھی آئی ہوئی ہے یہ نہیں کہ تم مجھے بتاؤ اپنی مستیوں میں لگی ہوئی ہو ۔وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا تو وہ حیران رہ گئی تھی۔
میری بھابھی نیچے آئی ہوئی ہے کون زمش۔۔۔۔؟ ارے وہ تو چھوٹی سی بچی ہے مجھ سے بھی چھوٹی ہوگی ۔
ارے نہیں ہے وہ چھوٹی بچی بھانھی ہے تمہاری اسے اوپر لے کر آؤ لیکن یہ بتائے بغیر کہ میں اسے اوپر بلا رہا ہوں ۔دس منٹ ہیں تمہارے پاس اگر وہ دس منٹ میں اوپر نہیں آئی نا تو یہ جو روز شام کو میں تمہارے لیے چپس اور چاکلیٹ لے کر آتا ہوں وہ کل سے بند ہو جائے گا ۔
ہائے اللہ جی ظالم لالا آپ ایسا نہیں کر سکتے میں لے کر آؤں گی نا بھابھی کو اوپر لیکن آپ تو میری بھابھی کے وہ ہو نا ایسے ایک دھار سے پکارو معصوم سی لڑکی ہے ڈر کر اوپر آ جائے گی وہ ہوشیاری سے اسے کہنے لگی ۔
جب عرزک نے نفی میں سر ہلایا اسے تھپڑ مار کر وہ ویسے بھی اسے خود سے ڈرا چکا تھا اور شاید بدزن بھی کر چکا تھا مزید وہ اس پر کسی طرح کی سختی نہیں کرنا چاہتا تھا اس دن اس کی فضول باتوں نے اسے اچھا خاصا غصہ دلایا تھا حالانکہ وہ جانتا ابھی تک کی وہ ساری باتیں برلاس خان کے ذہن سے نکلی تھی جو صرف ادا اس کے لبوں سے ہو رہی ہیں لیکن طلاق کے لفظ نے اس کا دماغ گھما کر رکھ دیا تھا ۔
بس اسے لیے اس نے بھی بنا سوچے سمجھے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا جس کے بعد وہ اچھا خاصا پچھتایا بھی تھا اور اس کے پچھتاوے کا نشان اس کے ہاتھ پر پٹی اس کے ساتھ موجود تھا ۔اپنا غصہ تو وہ اس پر نکال آیا تھا لیکن بعد میں اسی ہاتھ کو دیوار پر نہ جانے کتنے دفعہ مار کر اس نے خود کو چوٹ پہنچائی تھی۔
اور پھر اس ہاتھ کا علاج کروانے کے بجائے صرف پٹی باندھ تھی جس کی وجہ سے اس کا زخم بھی اچھا خاصا خراب ہو گیا تھا ۔
تم اسے لے کر آؤ نا اوپر میرے لیے میں بات کروں گا اس سے ۔لیکن زیادہ ہنگامہ نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اسے کو کچھ بھی پتہ چلنا چاہیے کسی بھی بہانے سے اوپر لے آؤ اسے لیکن لے آؤ ۔وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا تو اس نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے باہر کی طرف قدم بڑھائے تھے ۔
°°°°°°°°
سنو رائک مائک ٹائک ۔۔۔۔”میرا مطلب ہے لالابھائی ویر جی درخنے سیڑھیوں سے اترتے ہوئے یہی سوچ رہی تھی کہ وہ زمش کو اوپر والے کمرے میں کیسے لے کر آئے گی جب اسے راستے میں رائک کو اوپر جاتے ہوئے مل گیا تھا وہ اگلے ہی لمحے اس کے سامنے باہیں پھیلا کر کھڑی ہو گئی تھی جہاں اپنا نام بگاڑنے پر اس نے غصے سے اسے گھورا تھا وہیں لالا بھائی ویر جی کہنے پر اس کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑی تھی۔
ایک تو وہ اس کے سب سے عزیز دوست کی بیوی تھی اور پھر جس طرح کی حرکتیں وہ کرتی تھی اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ اسے کسی کمرے میں بند کر دے وہ بھی ہمیشہ کے لیے ۔
جلدی بولو ٹائم نہیں ہے میرے پاس وہ احسان کرنے والے انداز میں اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔جبکہ اس کے انداز پر اس نے منہ کے زاریے بگاڑے تھے ۔
عرزک لالا کو جانتے ہو میرے بھائی کو اس نے سرگوشانہ انداز میں پوچھا تو اس نے گھور کر اسے دیکھا تھا پھر پیچھے کو ہوئی ۔
جانتے ہو گئے تمہارا تو بھائی ہے نا لیکن تم اس لڑکی کو جانتے ہو جو نیچے بیٹھی ہوئی ہے اب کہ اس نے زمش کی طرف اشارہ کیا تھا ۔
ہاں اسے بھی جانتا ہوں اور تم مجھے یہ جو تم تم کہہ کر بلاتی ہو نا۔۔۔۔۔۔۔”اس کو ٹھیک کرو تم عمر میں کتنا بڑا ہوں تم۔سےاندازہ تو ہوگا ہی نہ تمہیں وہ سختی سے پوچھ رہا تھا ۔
ہاں ہاں پتہ ہے اب ذرا میری بات پر غورکرو آپ۔۔۔۔” اس نے آپ کو لمبا کھینچا تھا لیکن شکر تھا اس نے آپ کہا تو تھا ۔
ہاں جانتا ہوں میں سب کچھ اور بتانا پسند کرو گی تم وہ اس کی بات میں دلچسپی لینے لگا تھا ۔
میرے لالا ہیں نہ اوپر عرزک وہ ان کی بیوی ہے مطلب کہ میری بھابھی ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی بیوی کو نہ بلا کر اوپر لے کر آوں لیکن میں کیسے لے کر آؤں مجھے سمجھ نہیں آ رہا چلو تم میری مدد کرو میرا مطلب ہے آپ ۔۔۔۔۔”ویسے تو میں بہت سمجھدار ہوں لیکن اس وقت میرا دماغ کام نہیں کر رہا تو آپ میری مدد کریں اس نے اسے دیکھتے ہوئے اس انداز میں بتایا کہ رائک کو ہنسی آگئی تھی وہ خود کو سمجھدار کہہ رہی تھی کون سی بنا پر یہ وہ پوچھنا چاہتا تھا لیکن اس نے پوچھا نہیں تھا بےچاری بیکار میں شرمندہ ہو جائے گی ۔
ٹھیک ہے جو میں کہہ رہا ہوں وہ تم کرو گی میں الوینہ کو آواز دے کر اوپر بلاؤں گا کمرے میں وہ کمرے میں آئے گی تو تم جا کر اس سے کہو گی کہ الوینا اسے اوپر کمرے میں بلا رہی ہے ۔وہ اسے ائیڈیا دینے لگا تو وہ کنفیوز سی اسے دیکھنے لگی تھی ۔
ارے تم پاگل ہو کیا میں تم سے کیا کہہ رہی ہوں اور تم کیا کہہ رہے ہو ۔میں نے اس کو تمہارے کمرے میں نہیں بھیجنا اس کمرے میں بھیجنا ہے جس کمرے میں عرزک لالہ ہوتے ہیں وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی تھی ۔
تو میری ماں میں اسے وہیں پر بھیجنے کی بات کر رہا ہوں ۔تم اس کے ساتھ اوپر تک آؤ گی نا تو اس کو کہہ دینا کہ یہ والا جو کمرہ ہے اس کمرے میں الوینا اسے بلا رہی ہے ۔
ہائے اللہ میں جھوٹ بولوں۔۔۔۔؟؟ وہ منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ۔
مجھے تمہاری مدد کرنی ہی نہیں ہے تم جانو اور تمہارا لالا جانے وہ جان چھڑاتے ہوئے بولا تھا ۔
اچھا نہیں نہیں معاف کر دو معاف کر دو تم جو بولو گے وہ میں کروں گی میرا مطلب ہے آپ جو بولو گے وہ میں کروں گی ۔۔۔۔۔”وہ فورا سے معافی مانگنے لگی تو رائک نے احسان کرنے والے انداز میں اس کی مدد کرنے کو تیار ہو گیا تھا ۔
°°°°°°°
اوپر سے رائک کی آواز سنائی دی تو الوینہ ان کے قریب سے اٹھ کر اوپر چلی گئی تھی۔شاید اسے رائک کو کپڑے نکال کر دینے تھے۔
جب سے ان کی شادی ہوئی تھی رائک تو پوری طرح سے اس پر ڈیپینڈڈ ہو گیا تھا ہر چیز کے لیے اسے پکارتا تھا اور وہ بھاگی چلی جاتی تھی ۔
چلو اب میں چلتی ہوں مجھے بہت ٹائم ہو گیا ہے میں ڈرائیور باہر ویٹ کر رہا ہوں زمش نے اسسے کوئی گلا شکوہ نہیں کیا وہ بس اپنی بہن سے ملنے آئی تھی اور۔ اب واپس جا رہی تھی۔ آئرہ نے بھی برلاس خان کا ذکر نہ کیا وہ یوں ہی چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے ہوئے اب جانے لگی تھی ۔
وہ تمہیں اوپر الوینہ بلا رہی ہے وہ اٹھی ہی تھی جب درخنے نے اچانک سے وہاں پر اتے ہوئے اس سے کہا وہ جو بس آئرہ سے ملنے ہی لگی تھی اس کے کہنے پر وہ اوپر سیڑھیوں کی طرف چلی گئی۔اسے بھی یہ جان کر سکون ملا تھا کہ یہ لڑکی اس کی بہن کی سوتن نہیں ہے۔
وہ الوینہ کے کمرے کے بارے میں جانتی ہی تھی تینوں میں سے سینٹر والا کمرہ اس کا تھا جب اس کی شادی ہوئی تھی وہ اسی کمرے میں آئی تھی ۔
تم رائک لالا کے کمرے میں جاننا الوینا وہاں ہوتی ہے اس کمرے میں ۔۔۔۔”آئرہ بتا ہی رہی تھی جب درخنے نے سر پر ہاتھ مارا اور اس کے بات کاٹتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔
اس کو پتہ ہے آئرہ تم مت بتاؤ تم میری ہیلپ کرو اس نے اچانک آئرہ کا ہاتھ تھام لیا تھا جب کہ وہ کنفیوز سی سے دیکھنے لگی جب کہ زمس سیدھی اوپر کمرے کی طرف چلی گئی تھی اسے تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی کہ اسے کون سے کمرے میں جانا ہے وہ خود ہی غلط فہمی کا شکار تھی اور سیدھا عرزک والے کمرے میں ہی جا رہی تھی ۔
°°°°°°°°
السلام علیکم ارے وکیل صاحب آپ کو میری یاد کیسے آگئی اتنے سالوں کے بعد خیریت تو ہے نا وہ فون کان سے لگائے کافی خوشگوار لہجے میں بولا تھا اس کی دوسری طرف سے بھی خوشگوار سا ہی جواب سننے کو ملا ۔
الحمدللہ اللہ پاک کا بڑا کرم ہے بالکل ٹھیک تم سناؤ کیسے ہو بزنس کیسا جا رہا ہے تمہارا وہ بھی پرسکون انداز میں پوچھنے لگا ۔
الحمدللہ سب کچھ بہت پرفیکٹ جا رہا ہے زندگی مست گزر رہی ہے تم سناؤ بچے کیسے ہیں بیٹی کی پیدائش پر بہت بہت مبارک باد کشمیر آؤں گا تو تم سے ملنے ضرور آؤں گا ۔
بہت شکریہ خیر مبارک ازبک تم سے ایک بات پوچھنی تھی میری بات کو ٹھنڈے دماغ سے سننا اور سمجھنا اب کے دفعہ ذران سیریس لہجے میں بولا تو ازبک کو حیرانگی ہوئی تھی ۔
ہاں ہاں بتاؤ کیا پوچھنا ہے تمہیں وہ۔اٹھ کے بیٹھتے ہوئے کہنے لگا اس کا سیریس لہجہ اسے پریشان کر رہا تھا ۔
میرے پاس ایک کیس آیا ہے ایک کیس ہے اور یہ کیس مجھے کافی الجھا گیا ہے تو اسے سلجھانے کے لیے میں نے ڈائریکٹ تمہیں فون کر لیا میرے پاس جس آدمی کا کیس آیا ہے اس کا نام ازبک ہے اس نے بات شروع کی تو ازبک قہقہ لگا کر ہنسا تھا ۔
واہ ماشاءاللہ زران صاحب آپ کو میرے نام سے کیس ملنے لگے ہیں کیا کیس ہے مجھ پر تو کسی نے دفعہ نہیں لگا دی وہ مزے سے پوچھنے لگا تھا ۔
اتنا اندازہ تو اسے تھا ہی کہ زران آزاد کشمیر کی حدود تک ہی کیس لیتا ہے۔کہ اسے اس کے علاقے سے باہر جانے کی ضرورت نہ پڑے یقینا یہ کیس بھی آزاد کشمیر کا ہی ہونے والا تھا ۔
ازبک میں تم سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں پلیز تم برا منائے بغیر مجھے ٹھنڈے دماغ سے سوال کا جواب دینا۔
تمہاری بیوی کا نام کیا ہے آپ کی دفعہ زران نے اسے چپ کرواتے ہوئے اپنا سوال کیاتو ازبک کو اس کے سوال کا مطلب بالکل بھی سمجھ نہیں آیا تھا ۔
یہ کیسا فضول سوال ہے زران شاہ میں تمہیں اپنی بیوی کا نام کیوں بتا وں اور تمہارے اس کیس میں اگر کہیں پر میرا نام آ رہا ہے تو تم میری بیوی کو بھی اس میں کیوں گھسیٹ رہے ہو کیوں جاننا ہے تمہیں میری بیوی کا نام وہ کچھ الجھتے ہوئے بولا ۔
ازبک یار برا مت مان وہ یہ جو کیس میرے پاس آیا ہے نا وہ تیرے کزن زارق کے ایک دوست کی طرف سے آیا ہے ۔
ہم جب کراچی میں ایک ساتھ پڑھ رہے تھے نا تب وہاں پر زارق کا ایک دوست تھا عرزک خان تھا اس کا مجھے دو دن پہلے فون ایا تھا وہ مجھ سے ایک کیس پر ڈسکس کرنے لگا کہتا ہے کہ اس کی بہن کا طلاق کا کوئی مسئلہ چل رہا ہے اور وہ اپنے بہنوئی سے اپنی بہن کی طلاق کروانا چاہتا ہے۔تو اس نے اپنے بہنوئی کا جو نام مجھے بتایا ہے وہ ازبک خان درانی ہیں بس یہی چیز مجھے الجھا رہی تھی جس کی وجہ سے میں نے تجھے فون کیا ہے ۔
میں جانتا ہوں یہ بات کافی عجیب ہے اور تجھے بھی بہت عجیب لگ رہی ہوگی لیکن ۔۔؟دوست مجھے جو نام یہاں پر ملا ہے وہ آئرہ ازبک خان درانی ہے اور تو نے ایک دفعہ مجھے بتایا تھا کہ جس لڑکی سے تو پیار کرتا ہے اس کا نام آئرہ ہے ۔۔۔۔”دیکھ پلیز تو میری بات کا مطلب غلط مت نکالنا مجھے بس کہیں سے کنیکشن محسوس ہوا اسی لیے میں تجھے کال کر رہا ہوں ۔مطلب اگر تمہاری لائف میں کوئی پرابلم چل رہی تھی تو تم ڈائریکٹ مجھ سے فون پر بات کر کے اپنا کیس ڈسکس کر سکتے تھے کیا تمہاری پرسنل لائف میں کوئی پرابلم چل رہی ہے کیا تم لوگوں میں طلاق کا کوئی معاملہ چل نکلا ہے ۔وہ پریشانی سے اس سے پوچھ رہا تھا ۔جبکہ ازبک کا تومانو دماغ ہی خراب ہو گیا تھا ۔
وہ اس کی بات سن کر بری طرح سے الجھا تھا اس کے دماغ کی نسیں باہر کو ابھر آئی تھی ۔
نہیں ایسا کچھ نہیں ہے زران ہم دونوں میں سب کچھ ٹھیک ہے الحمدللہ ہماری شادی زندگی بالکل ٹھیک چل رہی ہے تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے تم شاید کسی اور کیس کی بات کر رہے ہو میرا نہیں خیال کہ اس چیز سے ہمارا کوئی تعلق ہے پچھلے دنوں کچھ مس انڈرسٹینڈنگ ہو گئی تھی لیکن اب سب کچھ ٹھیک ہے وہ ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا جب کہ دوسری طرف زران پرسکون ہو گیا تھا ۔
بس پھر ٹھیک ہے مجھے بس یہی پریشانی تھی کہ کہیں تیری شادی شدہ زندگی میں کوئی پرابلم تو نہیں چل رہی ہی نا تو بس اسی لیے میں نے تجھے فون کر لیا اور پھر یہ جو لڑکی کا نام میرے سامنے ایا تھا یہ نام آئرہ ہی تھا اور میرے ذہن میں ائرہ نام کی ایک ہی لڑکی ہے جس سے تو محبت کرتا تھا ۔لیکن شاید میں کنفیوز ہو رہا ہوں کہیں پر کچھ گڑبڑ ہو رہی ہے خیر میں تجھ سے پھر سے بات کروں گا وہ کہہ کر فون بند کرنے لگا تھا۔
کیا نام بتایا یہ کس تیرے پاس لے کر کون آیا ہے وہ فون رکھنے ہی لگا تھا جب اس نے سوال کیا ۔
عرزک خان درانی یار تمہارا کزن نہیں ہے زارق اس کا بیسٹ فرینڈ ہے یہ بندہ کراچی میں دو تین دفعہ میری ملاقات بھی ہوئی تھی اس سے زران نے مزید کہا ۔
اچھا اچھا ٹھیک ہے میں دوبارہ تم سے بات کروں گا اس نے کہہ کر فون رکھنا چاہا تھا جب کہ زران الودائی کلام کہتا فون بند کر گیا ۔اس کے دماغ سے اچانک جیسے دھماکے سے ہونے لگے تھے وہ بری طرح سے الجھا ہوا تھا ۔
عرزک ہر طرح کے معاملے سے دور رہتا تھا وہ ایسا سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا کہ عرزک نے اس طرح کا کوئی کیس کروایا تھا اور کیس کروانے کے لیے اسے اور کوئی نہیں ملا تھا زران جو کسی زمانے میں اس کا کلاس فلو رہ چکا تھا۔
اور وہ حق کیا رکھتا تھا اس طرح کا کوئی کیس کرنے کا وہ ہوتا کون تھا اس کی نیجی معاملات میں پڑھنے والا خیر اس بات کا جواب تو وہی دینے والا تھا
°°°°°°°
زمش تیزی سے اوپر آتی سیدھی الوینہ کے اس کمرے میں آئی تھی جہاں وہ شادی سے پہلے رہتی تھی ۔
اس نے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا تو اندر کوئی بھی نہیں تھا کمرہ بالکل خالی تھا وہ کمرے کے اندر آتی الوینہ کو پکارنے لگی تھی جب اچانک پیچھے سے دروازہ بند ہوا اس نے مر کر دیکھا تو پیچھے الوینہ کی جگہ عرزک کھڑا تھا وہ دروازے سے ٹیک لگا سینے پر ہاتھ باندھے مسکرا رہا تھا جبکہ زمش اسے اپنے سامنے دیکھ کر پہلے تو حیران ہوئی تھی پھر غصے سے اس کی طرف بری تھی اس کا ارادہ یقیناً کمرہ کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے کا تھا لیکن عرزک دروازے سے ہاتھوں اوپر لے کر جاتا اوپر والے کنڈی بند کر چکا تھا اس کی ہائٹ کافی چھوٹی تھی وہ اتنی اونچائی تک نہیں جا سکتی تھی جبکہ یہاں اتے ہی اس نے اپنے کمرے کو ساونڈ پروف کروا لیا تھا یقینا اس کمرے میں ہونے والے کسی بھی بات کی خبر باہر تک نہیں جانے والی تھی ۔
°°°°°°°
لائک کرو دے نیکسٹ لو سرپرائز 2k تے😁✌