Daily Roshni News

پرانی یادیں۔۔۔جب دور سُچے اور لوگ کھرے ہوتے تھے

پرانی یادیں

جب دور سُچے اور لوگ کھرے ہوتے تھے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کل محترمہ زارا جی کی وال پر چینی کی پلیٹ دیکھی تو بہت سی یادیں در آیئں لوہے کی پلیٹ پر چینی کے مصالحے سے خوب صورت ڈیزایئن بناے جاتے تھے جو کہ لوہے ۔پیتل۔تانبے کے برتنوں کے بعد ایک نیئ انونشن تھی لوہے کی پلیٹ۔ رکابی۔ اور پراتڑیوں پر یہ مصالحہ لگا کر ان کو خوبصورت بنایا جاتا تھا اور یہ پلیٹیں وغیرہ خاص مہمانوں کے لیئے ہی رکھی جاتی تھیں کچھ پلیٹوں پر پھول و نقش و نگار بناے جاتے تھے کچھ سادی ہوتیں بس آف وایئٹ اور سبز کناری والی ہوتی تھیں  ہمارے ہاں جگ بھی تھے اسی طرح کے بنے ہوے ۔۔۔۔

والدہ کے جہیز اور دادی کی سمبھال کر رکھی ہویئ تمام پلیٹیں رکابی(سرونگ ڈش) وغیرہ اور کچھ پیتل اسٹیل کی ملا کر غالباً 170کے قریب پلیٹیں بنتی تھیں اس کے علاوہ ایک بڑا سا حمام جو کہ پیتل کا بنا تھا اور بے تحاشا بستر جن کو میری والدہ ہر دو سال بعد ادھیڑ بُن کر نیا پنجواتی کچھ کے کور میں تبدیلی بنا کر نیئے انداز میں سلایئ کرتیں والدہ بہشتن بہترین سلایئ کڑھائی کرنا جانتی تھیں پیتل کی رکابیاں ترامے کے لگن حتی کہ دیگ تک والدہ کی اپنی تھی جو کہ امی جان ہر چھ ماہ بعد منجوا دھلوا کر پڑچھتی پرٹنگوا دیتی تھیں دادی کے ہاتھ کے بنے کھیس اور امی کے جہیز کے کھیس کڑھائی والے سرہانے یہ سب میری ماں کا اثاثہ تھے ۔۔۔۔

جنکو میری والدہ کبھی سنبھال سنبھال نا رکھتیں ہمارے گاوں کے کل گھرانے شایئد سو ڈیڑھ سو ہونگے جن میں کمہیار لوہار جولاہے درکھان بلوچ اعوان گھنجیرے سب شامل تھے کی شادیوں پر وہی برتن وہی بستر وہی چارپایئاں جاتے تھے جب کسی نے بچوں کی شادی کا ارادہ کرنا پہلے امی کی طرف “سنیہا” آ جاتا تھا کہ پھپھی جمشید ہم فلاں دن رکھ رہے ہیں اور بس پھر پھپھی جمشید(اعزازی رشتہ دیا گیا تھا گاوں کی طرف سے بڑوں چھوٹوں کی پھپھی تھیں ) نے لگ جانا عموماً شادیاں نومبر دسمبر کی ہی ہوتی تھیں بستر پیٹیوں سے نکل آنے دھوپ لگوایئ جانی برتنوں کی صفایئ ہونی اور شادی والے گھر نے شادی سے تین دن پہلے آ کر سب سامان لے جانا تب چوکیوں کے صورت میں کھانا سرو ہوتا بڑے دستر خواں جو گاوں کی عورتیں رویئ سے چرخے ہر دھاگہ بناتیں اور جولاہا اپنی کھڈی پر بناتا تھا جسکو چھیبویں کہا جاتا تھا یہ دو اڈھایئ گز کا ہوتا تھا  پر پچیس تیس لوگوں کا سالن پلیٹوں میں ڈال کر ساتھ روٹیاں میٹھے چاول رکھ دیئے جانے ایک چوکی اٹھنی تو دوسری بیٹھ جانی ۔۔۔۔۔

شادیوں کی تمام تیاری خریداری کے لیئے امی جان کی خدمات لی جاتیں حتی کہ مہندی کے تھال تک امی نے سجانے گڈی کاغذ افشاں (چم چم) موم بتیاں کاغذی پھول والدہ نے لے آنے اور مہندی کے تھال تیار کر دینے اس تمام محنت کا ریگارڈ دینے کے لیئے ایک رسم گھڑولی کی دلہے والے پھپھی جمشید کے ہی گھر سے بھرتے حالنکہ گھڑولی بھرنے آنے والیوں کو مکھانے ُپھلیاں بھی بانٹنی پڑتیں ساتھ ایک ایک روپے والے نوٹوں کی ویلیں بھی ڈھولی کو دینی پڑتیں اور ساتھ دھریس (جھومر) بھی مارنی پڑتی اور دلہے کی ماں کو ہتھ بھرے کا سوٹ بھی دینا پڑتا پہلے دن جب گاون بٹھاے جاتے (ڈھولکی) تو وہ بھی  پھپھی جمشید کی طرف سے ہوتا تھا اس دن شہر سے دو کلو بتاشے یا جلیبیاں لایئ جاتی  شام کو ہم سب شادی والے گھر پہنچتے اور ٹپے ماہیوں کے بعد وہ بتاشے بانٹے جاتے کُل ملا کر امی جان کا اچھا خاصا خرچہ ہو جاتا تھا اور کبھی واپسی پر پلیٹ کم ہونی تو کبھی کویئ دیگچی نا ہونی مگر مجال ہے کہ امی کے منہ پر کویئ ملال ہونا ۔۔۔۔

اس سب جمع خرچ کے بعد میں نے امی کو ہمیشہ شرسار ہی دیکھا اس وقت جو نسل بوڑھی ہو رہی گاوں میں ان سب ہی کی شادیوں کے سب اہتمام و انتظام میری والدہ ہی نے کیئے تھے اکثر بڑے بھایئ نے جب شادی کے اگلے روز گھر میں ایک بھونچال مچا دیکھنا کہ کہیں برتن مانجے جا رہے ہیں کہیں مسرتی نیانی پلیٹیں گن رہی کہیں عزیزاں بسترے سمبھال رہی تو جھنجلا کر کہنا امی آپ تھکتی نہیں ہیں تو میری والدہ نے کہنا میرا پتر اے تیرے نانکیاں نے چار بھانڈے دتے کس واسطے ہن پیٹیاں اچ رکھن واسطے ( بیٹا یہ چار برتن تمہارے ننھیال نے کیا پیٹیوں میں رکھنے کے لیئے ہی دیئے تھے ) بس ایسی ہی ہوتی تھیں گاوں کی شادیاں سارا گاوں ہی مصروف نظر آتا تھا کویئ برتن اکٹھے کر رہا ہے تو کویئ بسترے منجیاں لد لد کے لے جا رہا کسی کی بیٹھک میں شادی والے گھر کے مہمان رکنے تو کسی کے صحن میں زنانیوں کی روٹی لگنے کا بندوبست ہو رہا ہونا کبھی کسی نے منہ نا میلا کرنا ہنستے گاتے شادی نبھ جانی۔۔۔۔

 نا ٹینٹ کا نا کیٹرنگ کا خرچہ ہونا کیسا خوبصورت نظام تھا سو ڈیڑھ سو الگ گھرانہ شادی فوتگی پر ایک ہو جاتا تھا والد کی دوسری شادی کے بعد نجانے وہ پلیٹیں وہ حمام وہ بستر کدھر گیئے ہمیں نہیں معلوم مگر میں جانتی ہوں ان سب حقوق العباد کے بدلے میری ماں اور دادی لازم جنت کی مکیں ہونگی آج بھی جب ہم گاوں جایئں تو کویئ یہ نہیں کہتا کہ نوشی آیئ ہے سب ایک دوسرے کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ پھپھی جمشید دی دھی آیئ ہے اب بھلا آپ کسی کے گھر اپنے مہمان ٹھہرا کر دیکھیں ست سو شکوے ملیں گے کسی سے ڈنر سیٹ مانگ کر تو دیکھیں سب سے پہلے آپکے کُڑموں کے ہی کانوں میں بات پہنچایئ جایئگی اے ڈنر سیٹ اینہاں ساڈا منگیا ہویا اے یہ رونقیں محبتیں جذبے ان ہی لوگوں کے ساتھ دفن ہو گیئے ہیں

فوٹو کریڈٹZaara Mazhar صاحبہ

Loading