Daily Roshni News

یادگار غزل۔۔۔شاعرہ۔۔۔ پروین شاکر

یادگار غزل

شاعرہ پروین شاکر

شدید دُکھ تھا اگرچہ تِری جُدائی کا

ہُوا ہے رنج ہمیں تیری بے وفائی کا

تجھے بھی ذوق نئے تجربات کا ہو گا

ہمیں بھی شوق تھا کچھ بخت آزمائی کا

جو میرے سر سے دوپٹہ نہ ہٹنے دیتا تھا

اُسے بھی رنج نہیں میری بے ردائی کا

سفر میں رات جو آئی تو ساتھ چھوڑ گئے

جنھوں نے ہاتھ بڑھایا تھا رہنمائی کا

رِدا چِھنی مِرے سَر سے، مگر مَیں کیا کہتی

کٹا ہُوا تو نہ تھا ہاتھ میرے بھائی کا

مِلے تو ایسے، رگِ جاں کو جیسے چُھو آئے

جُدا ہُوئے تو وہی کرب نارسائی کا

کوئی سوال جو پُوچھے، تو کیا کہوں اُس سے

بچھڑنے والے ! سبب تو بتا جُدائی کا

مَیں سچ کو سچ بھی کہوں گی، مجھے خبر ہی نہ تھی

تجھے بھی علم نہ تھا میری اِس بُرائی کا

نہ دے سکا مجھے تعبیر ، خُواب تو بخشے

مَیں احترام کروں گی ، تِری بڑائی کا

پروین شاکر

Loading