Daily Roshni News

جاپان کی ٹومیکو ایتوکا 117 سال کی حیران کن عمر تک پہنچ گئیں۔

جاپان کی ٹومیکو ایتوکا 117 سال کی حیران کن عمر تک پہنچ گئیں۔

ہالینڈ(ڈیلی  روشنی نیوز انٹرنیشنل )جاپان کی ٹومیکو ایتوکا 117 سال کی حیران کن عمر تک پہنچ گئیں۔ ان کی طویل عمر کا راز کیا ہے؟ ایک سادہ طرزِ زندگی، مچھلی کی کثرت، اور ناقابلِ شکست عزم۔ اگرچہ ٹومیکو کی غیرمعمولی عمر نے دنیا کو حیران کر دیا، ان کی کہانی ایک اہم سوال کو جنم دیتی ہے: اگر 117 سال یا اس سے زیادہ کی زندگی گزارنا عام بات ہو جائے تو کیا ہوگا؟ کیا سائنس ہمیں لمبی زندگی، بلکہ شاید غیرمعینہ زندگی، گزارنے کے قابل بنا سکتی ہے؟

امر ہو جانے کا تصور اب زیادہ عرصے تک محض ایک افسانہ نہیں رہے گا، کیونکہ سائنسدان عمر بڑھنے کی وجوہات کو دریافت کر رہے ہیں۔ لیکن طویل زندگی کے امکانات کے ساتھ کئی نئے سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔ کیا ایسی زندگی جینے کے لیے ہم جسمانی، ذہنی اور اخلاقی طور پر تیار ہیں؟

عمر بڑھنے کے پیچھے سائنس کیا ہے؟

لوگ صدیوں سے طویل عمر کی کہانیوں سے متاثر ہوتے آئے ہیں، لیکن اب سائنسدان عمر رسیدگی کے افسانوں کے بجائے اس کے حیاتیاتی عوامل کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ ہمارے کروموسومز کے سروں پر موجود حفاظتی ڈھانچے، جنہیں ٹیلومیرز (telomeres) کہا جاتا ہے، خلیوں کے اندر اس راز کو محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ ٹیلومیرز عمر کے ساتھ ساتھ چھوٹے ہوتے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں خلیے خراب ہوتے ہیں اور بالآخر موت کا سامنا کرتے ہیں۔

تاہم، سائنس میں ایسی جدتیں سامنے آ رہی ہیں جو اس عمل کو روکنے یا پلٹنے کی کوشش کر رہی ہیں، جیسا کہ سیلولر ریجویوی نیشن (cellular rejuvenation) اور ٹیلومیرز کی توسیع (telomere extension)۔

ری جنریٹیو میڈیسن (regenerative medicine) اور جین ایڈیٹنگ (gene editing) جیسے شعبوں میں پیش رفت جانوروں پر ہونے والے تجربات میں امید افزا نتائج دکھا رہی ہے، جیسا کہ امریکن سائنٹسٹ کے مطابق رپورٹ کیا گیا ہے۔

مزید برآں، محققین میٹابولک ایڈجسٹمنٹ (metabolic adjustments) اور کیلوری پابندی (calorie restriction) کے ذریعے عمر کو بڑھانے کے امکانات کی تحقیق کر رہے ہیں۔ لیکن کیا چیز ہمیں “حیاتیاتی لاٹری” جیتنے سے روک رہی ہے؟ فی الحال، ان تکنیکوں کو بہتر بنانا اور ان کے خطرات کو قابو میں رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔

کیا ٹیکنالوجی ایک نیا راستہ فراہم کر سکتی ہے؟

ٹیکنالوجی ایک ایسا انقلابی متبادل پیش کر رہی ہے جو انسانی جسم کو عمر رسیدگی سے شفا دینے کی بجائے مکمل طور پر جسم کو ترک کر دینے پر مبنی ہے۔ “مائنڈ اپ لوڈنگ” (mind uploading) کا تصور اس وقت کی پیش گوئی کرتا ہے جب انسانی شعور (consciousness) ڈیجیٹل شکل میں محفوظ رہ سکے گا، موت کی قید سے آزاد ہو کر۔ اگرچہ یہ سائنس فکشن جیسا معلوم ہوتا ہے، لیکن نیورالنک (Neuralink) جیسے منصوبے انسانی دماغ اور کمپیوٹر کو یکجا کرنے کی سمت میں معمولی لیکن اہم پیش رفت کر رہے ہیں۔

تاہم، ایک “ڈیجیٹل انسان” ہونے کے نقصانات بھی ہیں۔ کیا آپ کے اندر اب بھی انسانی جذبات باقی رہیں گے؟ محبت، ہنسی، یا ایک لذیذ کھانے کا مزہ لینا ایک ایسے شعور کے لیے کیا معنی رکھے گا جو کسی سرور پر محفوظ ہو؟

کیا موت کو دھوکہ دینا ہمیشہ اچھا ہوتا ہے؟

اگر سائنس واقعی موت سے بچنے کا راز معلوم کر لے، تب بھی اخلاقی سوالات باقی رہیں گے۔ ایسی ٹیکنالوجی تک رسائی کس کو ہوگی؟ اگر یہ صرف امیر طبقے کے لیے دستیاب ہو، تو کیا معاشرہ مزید تقسیم کا شکار ہو جائے گا؟ اور زمین کا کیا ہوگا؟ ایک بڑھتی ہوئی آبادی کو کیسے سنبھالا جا سکتا ہے جب کہ پہلے ہی قدرتی وسائل پر دباؤ موجود ہے؟

ایک اور فلسفیانہ پہلو زندگی کے معنی کا ہے۔ موت زندگی میں جلد بازی پیدا کرتی ہے کیونکہ ہمارے پاس محدود وقت ہوتا ہے، جو ہمیں خطرہ مول لینے، تعلقات بنانے، اور ہر لمحے کا لطف اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ اگر ہم ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں تو کیا ہم زندگی کا مقصد کھو دیں گے؟

کیا لافانیت حقیقت بن سکتی ہے؟

ٹومیکو ایتوکا کی کہانی یاد دلاتی ہے کہ طویل عمر ممکن ہے، لیکن لافانیت ابھی بھی ایک دلچسپ امکان ہے۔ مستقبل میں، حیاتیاتی اور تکنیکی سائنسز کی ترقی سے انسان زندگی اور موت کے قوانین کو بدلنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ بحث کے قابل رہے گا کہ کیا یہ ایک ایسا مقصد ہے جس کا حصول ضروری ہے یا پھر یہ ایک ایسی “پینڈورا کی باکس” ہے جسے کھولنے سے گریز کرنا چاہیے۔

Loading