Daily Roshni News

صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی

صدائے جرس

تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی

 ہالیند(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ) زمین کو اداس دیکھ کر ایک صاحب دل اللہ کے بندے نے زمین سے پوچھا!

 اے میری ماں ! تو کیوں بے قرار ہے …؟ کیوں اُداس ہے اور کیوں پریشان ہے …؟ زمین کی آنکھیں پانی بن گئیں۔ زمین لرزتے ہوئے اور روتے ہوئے بولی! میرے بچے!میں بھی تمہاری طرح کا ایک وجود ہوں جس طرح تمہارے دو وجود ہیں اسی طرح میرے بھی دو وجود ہیں …. جس طرح تمہارے جسم پر پھوڑے پھنسیاں نکلتی ہیں اور جس طرح تمہارے جسم میں سڑاند پھیل جاتی ہے اور جس طرح تمہارے جسم زہر یلے ہو جاتے ہیں…. اسی طرح میرے ظاہر وجود میں بھی تمہارے برے اعمال سے…. خود غرضی سے… حق تلفی سے دولت پرستی سے… اور اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی نافرمانی سے….. داغ پڑ گئے ہیں…. زخم ناسور بن گئے ” زمین نے انکشاف کیا کہ میرے بچے جانتے ہیں کہ زمین پر ہر وجود وائبریشن پر قائم ہے۔ وائبریشن انسان میں بھی ہے…. وائبریشن درختوں میں بھی ہے …. پہاڑ بھی وائبریشن کے محتاج ہیں…. اور زمین بھی وائبریشن کی پابند ہے….. وائبریشن میں اعتدال ہوتا ہے تو ہر چیز ٹھیک رہنی ہے اور جب وائبریشن میں خلل واقع ہو تو توازن بگڑ جاتا ہے….. وائبریشن ضرورت سے زیادہ کم ہو جائے تو جمود طاری ہو جاتا ہے….. وائبریشن ضرورت سے زیادہ بڑھ جائے تو تباہی پھیل جاتی ہے۔ بربادی زمین پر اپنا ڈیرہ جمالیتی ہے …. دنیا میں کہیں بھی کوئی حادثہ پیش آتا ہے… وہ چھوٹا ہو یا بڑا … وائبریشن کے نظام میں مقداروں کی بے اعتدالی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب زمین پر بے انصافی ، حق تلفی ، حسد ، خود غرضی، ظلم، نا انصافی، دولت پرستی، مال وزر کالالچ اور غرور و تکبر اتنازیادہ ہو جاتا ہے کہ سٹم میں اعتدال قائم نہ رہے تو سسٹم ٹوٹ جاتا ہے۔ سسٹم ٹوٹنے کیلئے آندھیاں چلتی ہیں …. طوفان آتے ہیں…. ہریکین …. ٹائیفون …. اور سونامی (سمندریزلزلے (آتے ہیں۔

جب کوئی قوم اپنی زمین اور اپنے وطن سے محبت نہیں کرتی تو دراصل وہ زمین کے تحفظات سے خود کو دور کرتی ہے…. اور اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا قانون ایسے لوگوں کی مدد نہیں کرتا۔ جب کوئی قوم الہی قوانین سے انحراف کرتی ہے تو دراصل وہ قدرت کے کاموں میں دخل اندازی کرتی ہے۔ قدرت اس کو سسٹم سے باہر پھینک دیتیہے…. زمین تو موجود رہتی ہے…. لیکن آدم زاد ہلاکت کے گہرے گڑھوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ماڈی استحکام کیلئے انسانی قدریں پامال ہو رہی ہیں…. ہر فنا ہو جانے والی چیز پر بھروسہ کر لیا گیا ہے …. عارضی آسائش و آرام اور زر پرستی زندگی کا مقصد بن گیا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے اختلاف …. تفرقے بازی …. ملاوٹ …. قتل و غارت …. زمین پر فساد قدرت سے انحراف ہے۔ قدرت سے انحراف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی قدرت کا تعاون نہیں چاہتا ..اس وقت بھی نوع انسانی مستقبل کے خوف ناک تصادم کی زد میں ہے۔ زمین اپنی بقا کی تلاش میں لرز رہیہے۔ آندھیاں چل رہی ہیں، سمندری طوفان آرہے ہیں… کیونکہ انسان قدرت سے انحراف کر رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام رواداری کے سب سے بڑے علمبر دار ہیں ۔ قومی اور عالمی سطح پر امن کے قیام اور رواداری کے فروغ کے لئے رحمتہ اللعالمین حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت و حیات نمونہ عمل ہے۔ موجودہ تناظر میں ملکی سطح پر بالخصوص نسلی، علاقائی، گروہی، لسانی ، مذہبی و مسلکی اختلافات ، تفرقے کے خاتمہ اور مکمل طور پر امن کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ …. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اسوہ حسنہ پر عمل کیا جائے کہ یہی انسانیت کے لئے نمونہ عمل اور ابدی نجات ہے۔ اسلام امین کا داعی، صداقت کا علمبر دار اور انسانیت کا پیامبر ہے ۔ اس کی نگاہ میں بنی نوع انسانی کا ہر فرد مساوات کا مستحق ہے۔ وہ رنگ و نسل کے عیوب سے پاک ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے غیر مسلم اقوام اورا قلیتوں کے لیے مراعات، آزادی اور مذہبی رواداری پر مبنی ہدایات اس دور میں فرمائیں کہ جب لوگ مذہبی آزادی ور واداری سے نا آشنا تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مذہبی رواداری کی محض تلقین ہی نہیں فرمائی بلکہ عملی اقدامات بھی فرمائے۔ مفتوحہ قوموں اور غیر مسلم اقلیتوں کو آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی۔ ان کے جان و مال، عزت و آبرو اور عقیدہ و مذہب کا جس قدر تحفظ کیا گیا تاریخ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اسلام بتاتا ہے کہ تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ جو مذہب ہر مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا کنبہ سمجھے وہ بھلا مخلوق کو نقصان کیسے پہنچا سکتا ہے۔ دین اسلام سب کے لئے سرا پار حمت، امن اور سلامتی ہے۔ دین اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ …. ہم دوسرے انسانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا احترام کریں۔ہم سب رنگ و نسل اور مختلف مذاہب کے باجود اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ایک ہی پانی پیتے ہیں …. اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہو اسے مشترکہ طور پر زندہ ہیں…. سورج کی روشنی سب کے لئے یکساں ہے….. ہم سب ایک ہی مادے سے تخلیق ہوتے ہیں…. ہم سب اس دنیا میں آتے ہیں….. مقررہ وقت تک زندہ رہتے ہیں…. اور پھر اس دنیاسے چلے جاتے ہیں…. ہمیں چاہیئے کہ زندگی کے مختصر وقفے کو پیار محبت ، اتفاق اور بھائی چارے کی تصویر بنادیں …. اور خوش رہیں۔܀܀܀وحدت آبشار ہے امت دریا ہے۔ قوم بڑی بڑی نہریں ہیں برادری ندی ہے، کنبہ واٹر کورس ہے اور خاندان وہ نالیاں یاوہ شریا نہیں ہیں جن سے پانی گزر کر ہماری زمین کو لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔ خود غرضی قانون شکنی بغاوت ہے خلوص اور ایثار سعادت ہے۔ میں اعلان کرتا پھروں گا۔ کوئی سنے یا نہ سنے، میں پکارتا رہوں گا۔ انفرادیت ہلاکت ہے…. انفرادیت عذاب ہے … اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے وحدت نے ایک پیغمبر بھیجا جس نے یکجائی کی تعلیم دی … قوموں کو انفرادیت اور ذاتی غرض کا عفریت ڈس لیتا ہے وہ زمین پر ادبار بن جاتی ہیں… زمین اس غلاضت کو برداشت تو نہیں کرتی ہے لیکن اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے اس لیے کہ زمین ہماری ماں ہے، ہم زمین کی کو کھ سے پیدا ہوئے ہیں اور زمین ہمیں خوش دیکھنا چاہتی ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی للی کم کی تعلیمات یہ ہیں کہ ہم اجتماعیت سے آشنا ہو جائیں ہم اجتماعی حیثیت حاصل کر کے ہلاکت و بربادی سے محفوظ رہیں۔ نبی کریم صلی الی یکم کی تعلیمات کے مطابق مسلمان کی ساری زندگی اجتماعی زندگی ہے۔ اے لوگو سنو! اگر مسلمانوں نے انفرادی حیثیت کو ختم نہیں کیا تو پوری قوم کمزور ہو جائے گی، اس کو اپنا لقمہ بنا کر نگل لیں۔ جس طرح میرے اندر کے ”میں“ نے آگاہی بخشی ہے اسی طرح قوم کے اندر ایک اور قوم ہے۔ ایک اور شخص ہے ، ہم سب کی روح ایک ہے جو پکار رہی ہے جو بتا رہی ہے….. کہ اگر قوم نے انفرادیت کے عذاب سے نجات حاصل کر کے اجتماعیت کو گلے نہیں لگایا تو ٹکڑوں میں بٹی ہوئی، باہمی اختلافات میں الجھی ہوئی قوم آپس میں لڑ لڑ کر تباہ ہو جائے گی۔܀܀܀میں گھر گھر دستک دوں گا …. اے لوگو! ہم ایک ہیں۔ ہم ایک امت ہیں۔ ہم ایک قوم ہیں۔ ہم ایک برادری ہیں۔ ہم ایک کنبہ ہیں اور ہم ایک خاندان ہیں۔ ہمارا وطن خدا کی دین ہے ، اللہ رب الرحیم کا انعام ہے۔ انتشار نفرتوں، گروہوں سے آزاد ہو کر ایک مضبوط پلیٹ فارم پر جمع ہو کر رسول اللہ صلی علیم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر آئے ثابت کریں کہ ہم سب ایک ہیں۔ ہمارا دین اسلام ہے۔ ہمارا راستہ شریعت کا راستہ ہے۔ جبقوموں میں تفرقہ در آتا ہے تو قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ آئیے ! مضبوط ارادے کے ساتھ عہد کریں کہ : اپنے اندر نفرتوں کے جہنم کو بجھائیں گے۔ تاکہ ہم تفرقوں سے آزاد ہو جائیں …. اور اللہ کی رسی کو متحد ہوکر مضبوطی کے ساتھ تھام لیں

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2015

Loading