دھند، اندھیرے، تجسس اور خوف میں لپٹی تحریر
تحریر۔۔۔ رفاقت علی رانجھا
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ دھند، اندھیرے، تجسس اور خوف میں لپٹی تحریر۔۔۔ تحریر۔۔۔ رفاقت علی رانجھا )شہر سے نکلتے ہی میں نے بائیک کا ایکسلیریٹر فل گھما دیا اور بائیک فراٹے بھرنے لگی۔ دھند میی لپٹی ہماری سڑک پہ ان دنوں سرِشام ہی سناٹا چھا جاتا اوربقول لوگوں کے ڈاکو راج نافذ ہو جاتا۔ آج کوشش کے باوجود بھی مجھے شہر سے نکلتے نکلتے کافی دیر ہو چکی تھی اور ابھی مجھے طویل 40 کلو میٹر کا رستہ طے کر کے ایک گھنٹے میں اپنے گاؤں پہنچنا تھا۔ چند دن پہلے اسی سڑک پر واردات میں ڈاکووں نے نہ صرف ایک شخص سے بائیک چھینی تھی بلکہ اسے رسیوں سے باندھ کر شدید ٹھٹھرتی اور چلملاتی سردی میں کھیتوں میں پھینک گئے تھے جہاں سے اسکی سردی سے منجمد لاش برآمد ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ پولیس کئی بار ناکے لگانے کے باوجود بھی ڈاکؤوں کو گرفتار نہ کر سکی تھی۔ فضا میں دھند بگولوں کی طرح پھیل رہی تھی (تحریر رفاقت علی رانجھا) اور اندھیرےاور دھند میں لپٹی سڑک پر طاقتور ہیڈ لائٹ کے باوجود دیکھنے کی حد کافی کم تھی۔ کسی کسی جگہ دھند کے بادلوں کی کمی ہوتی تو میری رفتار خود بخود بڑھ جاتی اور ایک خاص وقفے کے بعد دوبارہ میں چند دسیوں گز پر محیط ایک ننھے سے دائرےمیں آباد دنیا کا ایک حصہ بن جاتا۔ ایسے ہی ایک حلقے میں جہاں دھند کم تھی میں نے درمیانی رفتار سے چلتے ایک 125 موٹر سائیکل کو کراس کرتے ہوئےچور نظروں سے سواروں کا سرسری جائزہ لیا تو پہلی بار میری تنہائی میں خوف بھی آن شریک ہوا۔ دونوں سواروں کے منہ کپڑے سے ڈھکے ہوئے تھےاور گہرے رنگ کے کپڑوں اور کالے رنگ کی بائیک کے باعث فقط ان کی ہیڈ لائٹ کے ذریعے ہی انکی موجودگی کا پتہ چل رہا تھا۔ میرے دماغ نے خطرے کی گھنٹی بجانا شروع کر دی تھی تاہم میں نے تسلی دیتے ہوئے اپنا خوف یہ سمجھ کر کم کرنے کی کوشش کی کہ اس طرح دہقانی لوگ سردی سے بچنے کیلئے ہیلمٹ کی بجائے منہ پر اکثر ڈھاٹا باندھ لیتے ہیں۔ تاہم احتیاط کے طور پر میں نے دھند میں راستہ بناتے ہوئے پھر ایکسلریٹر گھما دیا اور سوئی مسلسل اوپر کو جانے لگی۔ اچانک بیک ویو مرر میں دیکھنے پر مجھے احساس ہوا کہ میرے پیچھے والی بائیک بھی رفتار بڑھا چکی تھی۔ میں نے اسے وہم سمجھا اور ایکسلریٹر پر دباؤ اور بڑھا دیا اور ذہن سے منفی سوچ کو جھٹکنے کی کوشش کی تاہم میرا وہم اس وقت یقین میں بدل گیا جب پچھلی بائیک کی روشنی رفتار بڑھانے کے باوجود قریب آنے لگی۔ غیر ارادی طور پر میرا دباؤ ایکسلیریٹر پر مسلسل بڑھنے لگا۔ خوف کی وجہ سے شدید سردی کے باوجود پسینے کی ایک لکیر میری کمر پر رینگنا شروع ہو گئی۔ پچھلی بائیک قریب تر آنا شروع ہو گئی تھی اور اسکی ہیڈ لائٹ دھند میں راستہ بناتے ہوئے زیادہ واضح ہونا شروع ہو گئی۔ میرا تعاقب کیا جا رہا تھا شک کی امید اس وقت دم توڑ گئی جب بائیک پر تعاقب کرنے والوں کے ہیولے دکھائی دینے لگے اور سواروں کی تیز تیز حرکات ان کی نیت کا پتہ دینے لگیں۔ وہ بےساختہ ایسی حرکات کر رہے تھے جیسے مجھے رکنے کا اشارہ کر رہے ہوں۔ میرے پاس سوائے سپیڈ تیز کرنے کے اور کوئی چارہ نہ تھا مگر میرے حواس پر اس وقت دھند چھا گئی جب احساس ہوا کہ ایکسیلریٹر اپنےآخری درجہ تک گھوم چکا تھا۔ مجھےبے ساختہ اپنے والدین اور ان کی نصیحتیں یاد آنے لگیں اور میں اس وقت کو کوسنے لگا جب میں نے انکی نصیحتوں کو درخور اعتنا نہ سمجھا تھا۔ ساتھ ہی یکا یک مجھے شدید احساس ہوا کہ میری نیکیوں کا اکاؤنٹ بہت محدود ہے۔ ساتھ ہی کلمہ اور دعاؤں کا ورد میری زبان پر جاری ہو گیا۔ اب ہیولے واضح ہونے لگے لگے تھے۔ یہ وہی سوار تھے جنہیں میں رستے میں چھوڑ آیا تھا۔ ان کی ہیجانی حرکات واضح دکھائی دے رہی تھیں اور انکی غیر واضح مگر اونچی للکار نما آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں تاہم ہیلمٹ اور ہوا کی سنسناہٹ کی وجہ سے مطلب واضح نہیں ہو رھا تھا۔ اور اب شک کی گنجائش اس لئیے بھی دم توڑ گئی تھی کہ انکا واضح ہدف میں ہی تھا۔ وہ مجھے ہی دیکھ کرمسلسل آوازیں لگا رہے تھےاور رکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ میں عین اسی جگہ کے قریب پہنچ چکا تھا جہاں چند دن پہلے واردات ہوئی تھی۔ میں نے ہیلمٹ کا شیشہ اٹھا دیا اور اس امید پر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر آگے دیکھنے لگا کہ شاید سامنے سے کسی گاڑی کے آثار دکھائی دے جائیں مگر مجھے مایوسی ہوئی۔ یہاں سے سات آٹھ میل کے دائرے میں کوئی آبادی بھی نہ تھی۔ پیچھا کرنے والے اونچی اور رعب دار آواز میں مجھے للکا رہے تھے۔ مجھے یہیں کوئی فیصلہ کرنا تھا کیونکہ اگر وہ مجھ سے آگے نکل جاتے تو مجھے اس سنسان جگہ پر روک کر لوٹنا اور ٹھکانے لگانا مشکل نہ تھا۔ اسی لمحے میں نے خطرناک آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا کہ آگے بائیں ہاتھ دکھائی دینے والی کچی سڑک پر اچانک مڑ جاؤں گا اور بائیک پھینک کر قریب کسی گنے کے کھیت میں گھس جاؤنگا۔ جیسے ہی پچھلی بائیک میرے ساتھ آئی اور اس پر بیٹھے سوار نے اپنےمنہ سے کپڑا ہٹایا اور اپنا ھاتھ میری طرف بڑھایا میں نے یکدم بریک لگا کر بائیک کو بائیں سڑک پر موڑدیا۔وہ اپنی سپیڈ میں آگے نکلتے گئے مگر یہ کیا؟ اچانک چرڑڑڑ کی آواز سنائی دی اور ایسے لگا جیسے بائیک کا پہیہ نکل گیا ہو اور وہ سنگی سڑک پر گھسٹنے لگی ہو۔ ساتھ ہی لگنے والا جھٹکا اتنا شدید تھا کہ میں بائیک سے اچھلا اور اس کےساتھ ہی ہیلمٹ بھی سر سے گرا اور میں اندھیرے میں ڈوبتا چلا گیا۔
گرنے اور بے ہوش ہونے سے قبل بائیک کے پیچھے بیٹھے آدمی کے آخری الفاظ میری سماعتوں سے ٹکرائے “”او بھائی موٹر سائیکل دا سٹینڈ اُتے چُک لے۔۔۔۔۔۔۔””۔
مگر اب میں اس تکلف سے آزاد ہو چکا ہو تھا
رفاقت علی رانجھا
سال 2016