میں ایک شریف عورت ہوں
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میں ایک شریف عورت ہوں، شادی شدہ ہوں، ایک بچے کی ماں ہوں۔ اللہ کے واسطے میرا پیچھا چھوڑ دو، نہیں تو میں نوکری چھوڑ دوں گی۔اس نے کہا، یاد رکھنا، تبادلہ تو میں تمہارا یہاں سے ہونے نہیں دوں گا، لیکن جس دن تم نے یہ نوکری چھوڑی، تو میں تمہارے گھر آ جاؤں گا۔ پھر پتا ہے کیا ہو گا؟کیا ہو گا؟اس نے لفافہ آگے بڑھا کر کہا، جو ہو گا، اس میں لکھ دیا ہے۔ یہ لو، پڑھ لینا۔
👇👇
میں اور شگفتہ ایک ہی اسکول میں پڑھایا کرتے تھے۔ شگفتہ میری کلاس فیلو ہی نہیں، بلکہ بہت پیاری دوست بھی تھی۔ ہم نے اکٹھے پی ٹی سی کا کورس کیا تھا اور اتفاق سے ایک ہی گاؤں کے اسکول میں ہم دونوں کو ملازمت ملی۔ شگفتہ کا گھر ہمارے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ ہم ساتھ اسکول کے لیے نکلتی تھیں اور ایک ہی بس میں سوار ہو کر پڑھانے جایا کرتی تھیں۔ ہمارا اسکول شہر سے آٹھ میل دور تھا۔ روزانہ مجھے اور شگفتہ کو جانے اور آنے میں سولہ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا۔ ہم باتیں کرتی جاتیں، فاصلہ منٹوں میں طے ہو جاتا اور سفر کا پتا بھی نہ چلتا۔ جن دنوں یہ واقعہ ہوا، شگفتہ کا پہلا بیٹا ڈیڑھ سال کا تھا اور وہ امید سے تھی۔ ہوا یہ کہ میں بیمار ہو گئی اور پندرہ روز تک اسکول نہ جا سکی۔ ہمارے اسکول میں صرف تین استانیاں تھیں۔ میری بیماری کے باعث دو باقی رہ گئیں۔ جب میں چھٹی پر تھی، تو ان کا حاضر ہونا ضروری تھا کیونکہ ایک وقت میں صرف ایک استانی ہی غیر حاضر ہو سکتی تھی۔ ہمارا اسکول پرائمری تک تھا، اور پانچ کلاسوں کو ہم تین استانیاں سنبھالتی تھیں۔
جب میں بیمار ہوئی توشگفتہ کو میری کلاس بھی لینی پڑی۔ میری بیماری کے دوران وہ دو تین بار عیادت کو آئی، مگر بڑی پریشان تھی۔ بولی کہ مصباح تو جلدی سے اچھی ہو جا، مجھے اکیلے گاؤں کے اسکول جاتے بڑا ڈر لگتا ہے۔ میں نے کہا کہ اتنا عرصہ ہو گیا ہے تم کو گاؤں کے اسکول میں پڑھاتے ہوئے، ابھی تک تمہیں ڈر لگتا ہے؟ ضرور کوئی بات ہے۔بولی کہ تم ٹھیک ہو جاؤ تو بتاؤں گی۔پھر جب میں ٹھیک ہو گئی اور اس کے ساتھ اسکول جانے لگی، تو اس نے بتایا کہ ایک شخص اس کا پیچھا کر رہا ہے، جو باقاعدگی سے اس کا تعاقب کرتا ہے۔وہ بولی کہ تم دیکھنا، وہ نظر آئے گا، تمہیں بھی دکھاؤں گی۔ جب میں اکیلی جاتی تھی تو وہ میرا راستہ روک کر بات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
ایک بار بس کے اڈے پر لاری بہت دیر سے آئی تو اس نے ٹھنڈے مشروب کی بوتل لا کر میرے ہاتھ میں تھما دی۔ میری حالت اتنی خراب ہو گئی کہ کیا بتاؤں، اگر لیتی ہوں تو روحانی عذاب، آخر کیوں لوں؟ نہیں لیتی تو اتنے لوگوں میں تماشا بن جاتی۔ میں نے یہ کیا کہ وہ بوتل وہاں کھڑی ایک بوڑھی بھکارن کو پکڑا دی۔ شکر ہے کہ بس آ گئی اور میں جلدی سے اس میں سوار ہو گئی، مگر اس روز بھی اس نے میرا گھر تک تعاقب کیا تھا۔میں نے پوچھا کہ یہ شخص ہے کون؟ شگفتہ نے بتایا کہ اب پتا چل گیا ہے، گاؤں کے نمبردار کا رشتہ دار ہے۔ کچھ دنوں سے ان کے گھر میں آ کر ٹھہرا ہوا ہے۔ اس لفنگے کا پتا میں نے اسکول کی چپڑاسن سے کروایا ہے۔ اللہ کرے وہ مائی اپنی زبان بند رکھے، کہیں اسی بات پر لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔اب ہم پھر سے دو ہو گئی تھیں، تو شگفتہ کی پریشانی کچھ کم ہو گئی۔ اس کی ڈھارس بندھی۔ میں نے بھی تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں، وہ تمہارا بال بھی بیکا نہ کر سکے گا۔ دیکھنا تو سہی، کیسے مل کر اسے جوتے لگائیں گے ہم دونوں…شگفتہ اس بات سے اتنی پریشان نہیں تھی کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے، بلکہ اس بات سے زیادہ پریشان تھی کہ کہیں اس کے شوہر کو اس بات کی خبر نہ ہو جائے، کیونکہ طارق بہت شکی مزاج تھا۔ یقیناً وہ اس سے باز پرس کرنے سے پہلے ہی کوئی انتہائی قدم اٹھا لیتا۔ بیچاری طارق سے بہت ڈرتی تھی۔
اس روز دوپہر کا ایک بجا تھا۔ ہم دونوں لاری اڈے پر کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھیں۔ بس روز پونے ایک پر آ جاتی تھی، مگر آج نہ جانے کیا وجہ تھی کہ بس آتی نظر نہ آ رہی تھی۔ وہ پندرہ منٹ بھی ہمیں بھاری لگ رہے تھے۔ شگفتہ بے چینی سے گھڑی دیکھ رہی تھی، کیونکہ اس کی امی صبح اس کا بیٹا اپنے گھر لے جاتی تھیں اور پھر اس کے گھر آنے سے ذرا پہلے بچے کو لے کر شگفتہ کے گھر آ جاتی تھیں۔شگفتہ نے ادھر ادھر دیکھا، دراصل اسے اس نوجوان سے خطرہ تھا کہ کہیں وہ تنگ نہ کرے۔ میں یہاں اس نوجوان کا فرضی نام منور لکھ دیتی ہوں۔شگفتہ کا اندیشہ درست نکلا۔ ایک چھوٹا سا لڑکا ہاتھ میں گنے کے رس کے دو گلاس لے کر آیا اور ہمیں دینے لگا۔ میں نے کہا کہ لڑکے تمہیں کس نے کہا تھا یہ لانے کو؟ ہم نے تو نہیں منگوائے…وہ بولا کہ بس کے کنڈکٹر نے کہا ہے۔ وہ سامنے ہوٹل میں بیٹھا ہے۔ وہ کہتا ہے، ان اسکول والیوں سے کہو آج بس تین بجے آئے گی کیونکہ آج ادھر کی ٹریفک بند ہو گئی ہے۔
ایک وزیر دورے پر جا رہا ہے، اس کی گاڑی گزرنے والی ہے۔اس کی بات سن کر ہم پریشان ہو گئیں۔ شگفتہ نے پلٹ کر دیکھا تو وہی نوجوان مسکرا رہا تھا۔ وہ بولی، مصباح یہ گلاس منور نے بھجوائے ہیں، وہ دیکھ سامنے۔میں نے دیکھا، وہ واقعی مونچھوں پر تاؤ دے کر سینہ پھلائے فخریہ انداز سے ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے گلاس لڑکے کے ہاتھ سے لے کر ان میں بھرا ہوا رس زمین پر انڈیل دیا اور لڑکے سے کہا، جس نے یہ گلاس بھیجے ہیں اس کو کہنا، اگر اب ہمارا پیچھا کیا تو یاد رکھنا تمہاری بہت بے عزتی ہو گی۔ لڑکا چلا گیا۔شگفتہ بولی، کم بخت! یہ تو نے کیا کیا؟ یہ بہت خراب لوگ ہیں۔ اسکول کی مائی بتا رہی تھی کہ یہ بڑے خطرناک ہیں، نہ جانے اب یہ شخص ہم سے اپنی توہین کا کیسا انتقام لے گا۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے، روز روز کے مرنے سے ایک دن کا مر جانا اچھا ہے۔ نہ کسی سے اس کی شکایت کرنے دیتی ہو نہ تم اس سے خود کچھ کہتی ہو۔ ادھر یہ ہے کہ روز بروز اس کی ہمت بڑھتی جاتی ہے، آخر تمہاری کیا صلاح ہے؟اگلے روز مجھے اپنے تایا کے بیٹے کی شادی میں جانا پڑ گیا اور میں اسکول نہ جا سکی۔ شگفتہ اکیلی ہی گئی۔ (آگے پڑھنے کے لیے لنک اوپن کریں شکریہ)