Daily Roshni News

عشق کیا ہے۔۔؟۔۔۔قسط نمبر1

عشق کیا ہے۔۔؟

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )انسان کی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ محض رد عمل(Reaction)ہے۔درجہ حرارت کم ہوتا ہے، ٹھنڈی ہوا چلتی ہے تو ہمیں سردی لگتی ہے، تیز دھوپ میں نکلیں تو تپش سے حال برا ہونے لگتا ہے۔

کوئی ہم سے خوش اخلاقی سے بات کرے تو ہمیں اچھا محسوس ہوتا ہے، کوئی بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے تو ہمیں بہت برا لگتا ہے۔ ستائش اور تعریف کو سب پسند کرتے ہیں اور تحقید و نکتہ چینی بری محسوس ہوتی ہے۔ موسم کا معاملہ ہو یا اخلاق کا ، ان پر ہمارا رد عمل دراصل ہمارے محسوسات ہیں۔ ہم کسی کی بات پر خوش ہو جائیں کسی کی بات پر ناراض ہو جائیں۔ خوشی میں کسی کو بڑے بڑے درجات دینے لگیں، ناراض ہو جائیں تو اس کے نام سے بھی بے زاری محسوس ہو۔ ناراضگی بڑھ کر مخالفت، مخالفت بڑھ کر نظرت، نظرت بڑھ کر دشمنی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

اس دشمنی کے اسباب ڈھونڈے جائیں تو پتہ چلے گا کہ کہیں کوئی چھوٹی سی بات انا کو ٹھیس پہنچا گئی تھی۔

انا کو ٹھیس پہنچنا کیا ہے….؟ایک احساس ہی تو ہے۔ احساسات کی انسانی زندگی میں بہت اہمیت ہے۔ اکثر احساسات کی وجہ کوئی خارجی محرک (Stimulant) ہوتا ہے۔ پیاس، بھوک جیسے احساسات کا محرک خارجی نہیں داخلی ہے۔

انسانی زندگی کا ایک اہم ترین حصہ جذبات ہیں۔ اکثر جذبات کی بنیادیں طبعی یا فطری ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال عورت میں پایا جانے والا ممتا کا جذبہ ہے۔ احساس بنیادی طور پر ایک رد عمل ہے۔ جذبات انسان میں طبعی طور پر پائے جاتے ہیں۔

دنیا کا کوئی انسان احساسات اور جذبات سے خالی نہیں ہے۔ کوئی جذبہ انسان کو خوشی ، سرور ، تسکین عطا کرتا ہے تو کوئی جذبہ آدمی میں اداسی، بے چینی، ذہنی انتشار کا سبب بنتا ہے۔

محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ جذبہ محبت ہر انسان میں موجود ہے ۔ انسیت ، محبت، چاہت، عشق انسان کے لیے خوشی اور سکون کا ذریعہ بنتے ہیں۔

پیار، محبت ، چاہت، الفت، انسیت، لگاؤ۔ یہ سب وہ جذبے ہیں جنہیں سن کر دل میں ایک عجیب سا احساس ابھرتا ہے، یہ جذبہ دلوں کو خوشیاں دیتا ہے۔ ان جذبوں پر دنیا کی ہر زبان میں بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں نے بہت ہی اعلیٰ کلام کہا ہے ۔ محبت کے اظہار اور اپنے جذبے کی بہتر سے بہتر ترجمانی کے لیے تظموں، غزلوں اور نثر میں کتا ہیں لکھی ہیں۔ پیار محبت اور عشق بظاہر ایک جیسی کیفیات معلوم ہوتے ہیں۔ عموما لوگ، پیار، محبت اور عشق کو ایک ہی جذبہ سمجھتے ہیں لیکن ان جذبوں میں بہت فرق ہے۔ ہر کسی کا اپنا اپنا مقام ہے ، اپنے اپنے درجات ہیں…. آئے دیکھتے ہیں کہ یہ فطری جذبہ یعنی محبت ایک مرد یا عورت میں کس کس انداز میں ابھرتا ہے….؟

پسند یا چاہت:پسند کوئی جذبہ نہیں بلکہ ایک وقتی احساس ہے۔ یہ احساس تبدیل بھی ہوتارہتا ہے۔ مثال کے طور پر بچپن میں جو چیزیں ایک لڑکے یا لڑکی کی ترجیحات میں شامل ہوتی ہیں ، لڑکپن میں ان میں سے کئی چیزیں پسندیدہ نہیں رہتیں۔ پسند یا نا پسند کے معاملے میں یہ صورتحال زندگی کے ہر دور میں پیش آتی ہے۔ عمر ماحول اور موڈ کی تبدیلی کے ساتھ پسند میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ نوجوانی کے دور میں اکثر لڑکے اور لڑکیاں اپنی پسند کے معاملے میں شدت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اپنی نا پختہ سوچ کی وجہ سے اپنی کیفیت کا صحیح ادراک نہیں کر پاتے اور ان کیفیات کو بڑھا چڑھا کر محسوس (Exaggerate)کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پسندیدہ چیز یا پسندیدہ ہستی کو سوچ کر ہی ایک خوشگوار احساس ہو تا ہے لیکن پسند بہر حال ایک ابتدائی مرحلہ ہے اور زیادہ تر اس کی نوعیت وقتی ہوتی ہے۔ کشش Attraction کشش کی تعریف (Definition) بیان کرنا آسان نہیں ۔ کشش غیر ارادی اور غیر اختیاری بھی ہوتی ہے۔ اس طرح یہ ایک فطری کیفیت ہے۔ کشش کا تعلق انسان کی اپنی پسند نا پسند اور مختلف عادتوں سے بھی ہے۔ اس طرح یہ ایک اکتسابی عمل بھی ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو کرکٹ سے بہت دلچسپی ہے اسے کرکٹ میچز، کرکٹ کے کھلاڑیوں اور کرکٹ سے متعلقہ دیگر باتوں میں بہت دلچپسی ہو گی اور اسے اپنےپسندیدہ کرکٹر میں بہت کشش محسوس ہو گی۔ جسے کرکٹ پسند نہ ہوا سے نہ تو کرکٹ میچ میں دیا پی ہو گی نہ ہی کر کٹرز میں۔ کسی ادیب کو ادبی موضوعات پر گفتگو کرنا بہت مرغوب ہو گا، لیکن انہی کی گھر کے کسی فرد کو اس موضوع سے سخت بیزاری محسوس ہوتی ہو گی۔ یہ مثالیں اکتسابی کشش کی ہیں۔

فطری کشش کی سب سے نمایاں مثال صنف مخالف کی کشش ہے۔ مرد کے لیے عورت میں کشش ہے، عورت کے لیے مرد میں کشش ہے۔ یہ کشش ہر نوع کے مذکر و مونث، نرومادہ، مرد اور عورت Male) (and Female میں پائی جاتی ہے۔ کسی بھی نوع کی نسل جاری رکھنے کے لیے یہ قدرت کا ایک انتظام ہے۔ کشش بھی پسند (Likens) کی طرح ایک وقتی کیفیت ہو سکتی ہے۔ کبھی کسی شخص ، شے ، موضوع وغیر ہ میں کشش کا دورانیہ زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ کشش کی ایک وجہ تجس (Curiosity) بھی ہو سکتی ہے۔ اپنی دسترس سے باہر یا اپنی نگاہوں سے مسدور کوئی وجود آدمی کو تجس پر ابھارتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بند کتاب کسی آدمی کو نجس پر ابھارتی ہے وہ اس کتاب کی طرف اٹریکٹ ہوتا ہے ، کتاب پالینے اور مطالعہ کرنے کے بعد وہ جو پہلے اس کتاب کے لیے بہت بے چین ہو رہا تھا اس سے بے غرض بھی ہو سکتا ہے۔ کسی فلم یاڈرامے کے ریلیز ہونے سے پہلے اس کے بارے میں تجس بڑھایا جاتا ہے، لوگ بے چینی سے اس کا انتظار کرنے لگتے ہیں ، کسی فلم کے لیے سینما کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ بعد میں وہی فلم اپنے گھر میں ٹی وی پر چل رہی ہو تو قطاروں میں کھڑے رہ کر اسے دیکھنے والا شخص بھی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔

کسی نئے کھلونے کی کشش بچہ کو تجس پر اور اس کھلونے کے حصول پر مجبور کر دیتی ہے۔ بچہ ضد پکڑ لیتا ہے۔ والدین وہ کھلونا اسے لا دیتے ہیں تو وہ خوش ہو کر اس سے کھیلنے لگتا ہے مگر کچھ عرصے بعد وہ اس کھلونے سے آتا جاتا ہے اور وہی کھلونا گھر کے کسی کونے میں ٹوٹا پڑا نظر آتا ہے۔

اسی طرح جنسی کشش کا معاملہ ہے۔ جنسی کشش ایک ہی نوع کے دو مخالف صنفوں کے درمیان فطری طور پر پائی جاتی ہے۔ یہ کشش دونوں کے لیے تجس کا باعث ہوتی ہے۔ عموما بعض لوگ اس تجسس اور کشش کو ہی محبت کا نام دیتے ہیں لیکن جب وہ ایک دوسرے کو پالیتے ہیں اور نجس باقی نہیں رہتا تو محبت کے بڑے بڑے دعوے دار جوڑوں میں ایک دوسرے سے بیزاری صاف نظر آتی ہے۔

بعض لوگ نوجوانی میں صنف مخالف میں کسی کو دیکھتے ہی اس کی محبت میں مبتلا ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس جذباتی محبت کی ابتداء تو شاندار ، سرور آمیز اور پر کیف ہو سکتی ہے لیکن ایسی پہلی نظر کی کئی محبتوں کا انجام کربناک اور پریشان کن بھی دیکھا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے بہت اصرار اور بعض اوقات والدین کی سخت مخالفت کے باوجود کی جانے والی شادیاں چند ماہ بعد ہی ایک جبری تعلق میں تبدیل ہو گئیں۔کئی جوڑے ایسے بھی دیکھے گئے جو کچھ اس شدت کے ساتھ اظہار محبت کرتے نظر آتے تھے کہ گویا ایک دوسرے کے لیے جان بھی دے دیں گے، مگر شادی کے بعد کسی معمولی بات پر ہی ان کے درمیان ایسی دوریاں ہوئیں کہ لگتا تھا کہ ایک دوسرے کی جان ہی لے لیں گے ۔ اپنے محبوب یا محبوبہ کی تعریفوں کے پل باندھنے والے ناراض ہوئے تو ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آئے۔

پیار Love

پیار انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ جس طرح سانس لینا، کھانا کھانا، پانی پینا، سونا، جاگنا، انسانی فطرت کے جزو ہیں، اسی طرح پیار بھی ہر انسان کی ایک ضرورت ہے۔ یہ فطری جذبہ ہر انسان کو ورثے میں ملاتا ہے۔ ہم جب دوسروں سے بحیثیت انسان پیار کرتے ہیں تو دراصل ہم فطرت سے اپنے پیار کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم اپنے عزیزوں، دوستوں سے پیار کرتے ہیں ، اپنے ماں باپ بہن بھائی ، شوہر، بیوی ، بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ اپنے گھر بھی، گاؤں، شہر اور ملک سے پیار کرتے ہیں۔ پھولوں، پودوں، پرندوں اور جانوروں سے

پیار کرتے ہیں۔

یہ سب فطری پیار کی مثالیں ہیں۔پیار کے کئی روپ ہوتے ہیں، آپ کے ماں باپ آپ کی پروا کرتے ہیں، ہر لمحہ آپ کا خیال کرتے ہیں آپ کا بھلا سوچتے ہیں ، یہ پیار ہے۔ ماں کو اپنی اولاد پیاری ہوتی ہے ۔ اولاد کے چھوٹے سے چھوٹے کام کو ماں رغبت و خوشی سے انجام دیتی ہے…. کھانا کھلانا ہو ، نہلانا وھلانا ہو ، سلانا جگاتا ہو ، لکھانا پڑھانا ہو …. ماں کبھی بیزار نہیں ہو گی اس لیے کہ یہ کام اولاد سے اس کی پیار کا تقاضا ہیں۔ باپ اپنی اولاد کی مناسب دیکھ بھال ۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2016

Loading