Daily Roshni News

بتاؤ میں کون ہوں؟۔۔۔قسط نمبر1

بتاؤ میں کون ہوں؟

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ بتاؤ میں کون ہوں؟ )تقسیم ہند سے قبل ہندوستان میں جنات سے منسوب چند پُر اسرار واقعات۔سینہ گزٹ اردو ادب میں ان قصوں اور داستانوں کو کہا جاتا ہے جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہوں۔ سینہ گزٹ واقعات کی حقیقت کیا ہے، یہ قصے مصدقہ ہیں یا نہیں، یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ ایسے واقعات یا قصوں میں کوئی اصلیت ہو نہ ہو لیکن ان کی ایک خوب صورتی یہ ہے کہ ان میں کوئی علت یعنی دلیل ضرور پائی جاتی ہے۔ قاری کی طبیعت قبول کرنے لگتی ہے۔ یہ کہانیاں صدیوں کا سفر کر کے ہمارے لٹریچر کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ہر معاشرہ اپنے وقت کے تقاضوں کے مطابق ان کہانیوں سے تفریح کے ساتھ ساتھ دانش بھی کشید کرتارہتا ہے۔ اردو کے ممتاز ادیبوں، معروف اہل قلم اور مشہور روحانی شخصیات کی کتابوں میں ہمیں اس طرح کے کئی ماورائے عقل واقعات، ناقابل فہم اور حیرت انگیز قصائص پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ایسی کئی روایات اور واقعات کو مشاہیر ادب نے اپنی خود نوشت سوانح عمریوں، آپ بیتی یایاد داشتوں پر مبنی کتابوں میں جگہ دی ہے۔ ان تحریروں کی حیثیت سینہ گزٹ سے زیادہ کچھ نہیں، مگر یہ قارئین میں تو بہت مقبول ہیں۔ یہاں ہم خان بہادر تقی محمد خان خلیل خورجوی کی خود نوشت کتاب ”عمر رفتہ “ سے جنات سے منسوب چند پر اسرار واقعات نقل کر رہے ہیں۔

بعض لوگوں کو ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو حد درجہ پر اسرار اور اکثر ناقابل یقین

ہوتے ہیں۔یہاں ہم خان بہادر نقی محمد خان خلیل خور جوی (1880 – 1969) کی آپ بیتی عمر رفتہ “ سے ایک ایساہی واقعہ نقل کر رہے ہیں یہ واقعہ مصنف کے ایک دوست کے ساتھ پیش آیا تھا۔ خور جوی صاحب نے یہ آپ بیتی 82 سال کی عمر میں لکھی تھی۔

جن“ خدا کی ایک مخلوق ہے۔ اس کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ جسامت، قدامت شکل و شباہت کے لحاظ سے جنات کیسے ہوتے ہیں اور انسانوں سے ان کا کیا واسطہ ہے….؟ انسانوں میں یہ سوچ عام ہے کہ ہر وہ معاملہ جو محیر العقول ہوتا ہے یا تو بھوت یا جنات سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ بطور تمثیل یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔

میرے ایک دوست کا بیان ہے کہ ان کے مکان میں ایک جنگلی بلاؤ آیا کرتا تھا۔ کبھی مرغیوں اور کبوتروں کا نقصان کرتا اور کبھی کھانے پینے کی چیزوں کو خراب کرتا۔ مجبور ہو کر ایک روز پستول بھر کر اپنے پاس رکھ لیا تا کہ اس کو ختم ہی کر دیں۔ کسی کھٹکے سے رات کو ان کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ایک دوسرے خالی پلنگ کے نیچے وہ سکڑا بیٹھا ہے۔ انہوں نے آہستہ سے پستول اٹھا یا، نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ لالٹین کی روشنی اس قدر کم تھی کہ وہ چیز صاف نظر نہ آتی تھی۔ تاہم انہوں نے دیکھا کہ فائر کے ساتھ ہی اس کے دو حصہ ہو گئے۔ گویا گولی نے تلوار کا کام کیا، یہ اٹھے لالٹین کی روشنی تیز کی اور دیکھا تو وہ بلاؤ نہ تھا بلکہ ان کے سیاہ بوٹ جن میں سے ایک بوٹ گولی لگنے سے دور ہٹ گیا تھا اور گولی اس میں سے پار ہو گئی تھی۔

یہ واقعہ تو وہ ہے جن میں انسانی عقل اور اس کے حواس خمسہ دھو کہ دیا کرتے ہیں۔ اب وہ واقعہ ہو جہاں انسانی عقل و سمجھ کی حدود مختم ہو جاتی ہیں۔

میرے ایک دوست (مقیم الدین انصاری) محکمہ سروے میں سپر نٹنڈنٹ تھے۔ اکثر ان کو کئی کئی ماہ تک پہاڑ اور جنگلوں میں رہنا پڑتا تھا۔ ایک بار انہیں پہاڑی سروے کے سلسلہ میں مسوری سے کافی فاصلہ پر جانے کا اتفاق ہوا، ماتحتوں کی ایک پارٹی اور حفاظتی گارڈ، خیمہ اور رسد کا کافی سامان ساتھ تھا۔ جہاں انہیں خیمہ لگانا تھا وہاں میلوں تک انسانی آبادی نہ تھی۔

پہاڑی راستے نہایت دشوار گزار اور خاردار تھے۔ ڈاک کے انتظام کے واسطے دس دس میل پر چوکیاں قائم کر دی گئی تھیں اگر کوئی چھوٹی موٹی چیز بھی منگائی ہوتی تو دس روز سے پہلے نہ ملتی تھی۔ تنہائی تھی۔ خاموشی تھی ہر طرف پہاڑی جنگل اور درندے تھے۔ اگر کوئی اور تکلیف تھی تو یہ تھی کہ بنے بولنے وال اور ہم مذاق کوئی نہ تھالی ماتحتوں سے محض ضابطہ قاعدہ کی ملاقات تھی۔ صبح کو وہ جنگل میں ہر طرف پہاڑوں پر جاکر نقشہ کشی کرتے تھے شام سے پہلے تھکے ماندے اپنے کیمپ پر اپنے اپنے ٹیموں میں کھس جاتے تھے۔ ہمارا کیمپ ایک چشمہ کے قریب مناسب جگہ پر واقع تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ دوسرے تیسرے روز میں ان کے کاموں کا جائزہ لینے کے واسطے باہر جاتا اور بڑے ڈیرے میں فرش پر نقشے مرتب کئے جاتے تھے۔ رات کو اتنی زیادہ خاموشی ہو جاتی تھی کہ بعض اوقات اپنی سانس کی آواز بھی سنائی دیتی تھی۔

اس خانہ بدوشی کی حالت میں ہم لوگوں کو آٹھ دس روز ہو گئے تھے ایک روز تقریبا 3 بجے دن کو جب کہ چند کلرکوں کے ساتھ بڑے ڈیرے میں فرش بیٹھا ہوا میں کام میں مصروف تھا۔ ایک اجنبی چک اٹھا کر بلا اطلاع اندر آگئے۔ اور میرے قریب فرش پر بیٹھ گئے۔ میں ان کو دیکھ کر حیران ہو گیا۔

کیونکہ دور یا نزدیک نہ کوئی مکان نہ آبادی نہ کوئی انسان وضع قطع سے شریف اور نفاست پسند معلوم ہوتے تھے قدیم لباس زیب تن تھا۔ بیل دار سفید ٹوپی، ململ کا سفید کرتا اس پر چورانی وضع کا سفید انگر کھا۔ ڈھیلے پائنچے اور سبز مخملی پاپوش (جوتا) پہنے ہوئے تھے۔

وہ میرے قریب بیٹھے ہوئے تھے ان کے جسم سے کبھی کبھی مجھے عطر کی خوشبو بھی محسوس ہوئی۔ گندمی رنگ، خوبصورت جسم، خوش نما چہرہ، چھوٹی مونچھیں، خشخاشی داڑھی، عمر تخمیناً 35-40 سال ناصرف میں بلکہ میرے ماتحت جو اس وقت موجود تھے انہیں دیکھ کر حیران ہو گئے۔

وہ السلام علیکم کہہ کہ میرے قریب بیٹھ چکے تھے۔ میں نے سگریٹ پیش کئے۔ انہوں نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا۔ چائے کی پیش کش پر اخلا قا ہاتھ جوڑ کر جواب دیا کہ میں اس چیز کا عادی نہیں ہوں۔ پان نہ میں کھاتا تھا اور نہ وہ عادی معلوم ہوتے تھے۔

میں نے کہا اس جنگل میں آپ کی کیا خاطر کروں۔ کہنے لگے آپ کا اخلاق ہی کافی ہے۔ میں اکثر آپ لوگوں کو ان پہاڑوں اور جنگلوں میں دیکھا کرتا تھا آج دل چاہا کہ آپ سے ملاقات بھی کروں اور آپ کے کام میں حارج ہوں۔

میں نے کہا حضرت کام اپنا وقت اپنا، حرج کا تو سوال ہی نہیں۔ ہاں یہ تو بتلا ہے، آپ اس پہاڑی جنگل میں رہتے کہاں ہیں۔اس سوال پر وہ مسکرائے اور یہ شعر پڑھا۔ ایک جارہتے نہیں عاشق ناکام کہیں دن کہیں رات کہیں، صبح کہیں شام کہیں میں نے نام پوچھا تو ہنس کر کہا گم نام ہوں یہ کہہ کر کہ ”یار زندہ صحبت باقی“ انہوں نے ڈیرے کی چک اٹھائی اور باہر چلے گئے۔ میں نے اخلاق ساتھ جانا چاہا لیکن انہوں نے منع کر دیا۔ وہ قریب کے ایک نالے میں جو نشیب میں تھا اتر گئے۔ میرے ساتھیوں نے ادھر اُدھر دیکھا لیکن کہیں نظر نہ آئے۔ دیر تک ہم لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں کہ ایسے اجلے پوش کا اس جنگلاور پہاڑوں میں کیا کام ! ….تھوڑی دیر گفتگو کے بعد بات آئی گئی ہو گئی۔ سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ تین چار روز بعد، پھر ایک روز چار بجے شام کے قریب وہ آگئے اور حسب سابق السلام علیکم کہہ کر فرش پر بیٹھ گئے۔ کپڑے ویسے ہی صاف شفاف پہنے ہوئے تھے۔ چند سبز اخروٹ ان کے ہاتھ میں تھے۔ انہوں نے یہ کہہ کر مجھے دیئے کہ و برگ سبز است تحفہ درویش۔ میں نے ایک خود لیا اور باقی دوسروں کو دے دیئے۔ابھی ان کو آئے ہوئے پانچ منٹ بھی نہ ہوئے تھے کہ یکبارگی کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ آپ لوگ بڑے لاپر واہ ہیں۔ یہ بڑا بھاری نقشہ جو آپ کے سامنے بچھا ہوا ہے اس کے نیچے ایک زبر دست کالا سانپ موجود ہے۔ ہم لوگ بھی خوف زدہ ہو گئے اور احتیاط سے نقشہ کو ہٹا کر دیکھا۔ فی الواقع۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2025

Loading