▪️ آج کی شخصیت ▪️
طارق عزیز
معروف ٹیلی ویژن میزبان اداکار شاعر
17 جون 2020ء یومِ وفات
ہم وہ سیاہ بخت ہیں طارق کہ شہر میں
کھولیں دوکان کفن کی تو لوگ مرنا چھوڑ دیں
( 26 نومبر 1964ء کو جب پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو طارق عزیز پاکستان ٹیلی ویژن پر دکھائی دینے والا پہلا چہرہ تھے )
▪️ حالات زندگی
پاکستان کے نامور صداکار، اداکار اور شاعر تھے۔ وہ 28 اپریل 1936ء جالندھر کے ارائیں خاندان میں میاں عبدالعزیز پاکستانی کے ہاں پیدا ہوئے، جنہوں نے قیام پاکستان سے گیارہ سال قبل اپنے نام کے ساتھ ’پاکستانی‘ لکھنا شروع کر دیا تھا۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے حوالے سے نازیبا کلمات کہنے پر میاں عبد العزیز پاکستانی نے اپنے انگریز افسر کے دانت توڑ دیے تھے۔
طارق عزیز نے ابتدائی تعلیم جالندھر میں حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ساہیوال منتقل ہوئے۔ تھوڑے بڑے ہوئے تو اپنے قریبی دوست مہدی حسن کے ساتھ لاہور کے لیے یہ کہتے ہوئے نکلے کہ ’آج کے بعد ہم نے گھر والوں سے کچھ نہیں لینا (یعنی اپنا خرچہ اب خود اٹھائیں گے۔) آپ نے اپنا بچپن ساہیوال میں گزارا۔ طارق عزیز نے ابتدائی تعلیم ساہیوال سے ہی حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ تاہم 1975ء میں شروع کیے جانے والے ان کے سٹیج شو نیلام گھر نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ پروگرام کئی سال تک جاری رہا اور اسے بعد میں بزمِ طارق عزیز شو کا نام دے دیا گیا۔
▪️150 روپے سے 10 لاکھ فی گھنٹہ تک کا سفر
طارق عزیز اپنے کیریئر میں ملک کے سب سے مہنگے ٹی وی ہوسٹ رہے ہیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا انہوں نے ایک گھنٹے کا معاوضہ دس لاکھ روپے تک بھی وصول کیا ہے اور اس کے علاوہ ایک گھنٹے سے جتنے منٹ زیادہ ہوتے تو اس کا معاوضہ الگ ملتا تھا۔ لیکن یہ تو ان کے کیریئر کے عروج کا زمانہ تھا۔ وہ سنہ 1960ء میں ریڈیو لاہور سے وابستہ ہوئے جہاں ان کا معاوضہ ڈیڑھ سو روپے طے ہوا تھا۔
▪️طارق عزیز کالم نگار اور شاعر بھی
طارق عزیز کالم نگار اور شاعر بھی تھے ان کے کالموں کا مجموعہ ’داستان‘ اور پنجابی شاعری پر مشتمل کتا ب ’ہمزاد دا دکھ‘ بھی شائع ہوئی تھی۔ وہ ادب اور شاعری سے گہری رغبت رکھتے تھے اور اس کی مثال یہ ہے کہ اُن کے چاہنے والوں نے دیکھا کہ اپنے 40 سالہ طویل ٹی وی شو میں کسی قابل ذکر شاعر کا کوئی ایسا شعر نہ تھا جو انہیں ازبر نہ ہوتا۔ طارق عزیز ایک عرصہ فلم انڈسٹری سے بھی وابستہ رہے جہاں انہوں نے لگ بھگ 25 فلموں میں مرکزی اور اہم نوعیت کے رول کیے۔ یہ طارق عزیز کی خوش قسمتی رہی کہ پاکستانی فلم میکرز نے ان کے لیے کردار بھی ایسے لکھے جن میں اُنہیں جوشِ خطابت کے مواقع ملتے رہے
▪️طارق عزیز نے کعبہ میں اینٹ نصب کی
طارق عزیز بتایا کرتے تھے کہ وہ خوش نصیب ہیں کہ انھیں یہ سعادت نصیب ہوئی کہ انہوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے متبرک کام میں ایک مزدور کی حیثیت سے کچھ دیر کام کیا۔ آغا قیصر کے مطابق طارق عزیز بتاتے تھے کہ انہیں خانہ کعبہ میں ایک اینٹ لگانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ ’انہیں یہ سعادت خانہ کعبہ کی تعمیر نو پر تعینات ایک پاکستانی کنٹریکٹر کے تعاون سے نصیب ہوئی تھی جو اُن کا مداح تھا ۔
▪️دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے‘
’دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے‘ یہ وہ جملہ ہے جو ربع صدی سے زائد وقت سے ہماری سماعتوں میں گونجتا رہا۔ طارق عزیز جب اپنے ٹی وی شو کے آغاز میں بھاگتے ہوئے لوگوں کے سامنے آتے اور یہ جملہ ادا کرتے توسب ہاتھ دیوانہ وار تالیاں بجا کر اُن کا استقبال کیا کرتے۔سینیئر اداکار اور طارق عزیز کے قریبی دوست محمد قوی خان بتاتے ہیں کہ یہ ابتدائیہ طارق نے یوں اختراع کیا تھا کہ ایک دن اسے ایک ایسا پُرستار ملا جو آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا تھا۔’اُس نے کہا طارق عزیز صاحب میں تو آپ کا ہر پروگرام سنتا ہوں، بلکہ کانوں سے سنتے ہوئے آپ کو دیکھتا ہوں، لیکن آپ مجھے کبھی مخاطب ہی نہیں کرتے۔ اس نابینا پرستار کی فرمائش پر خدا نے طارق کو یہ خیال بخشا اور اس کے دماغ میں یہ جملہ اُترا کہ ’دیکھتی آنکھوں سُنتے کانوں کو طارق کا سلام پہنچے۔‘ اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ طارق عزیز کا سلام ساری دنیا تک پہنچ گیا۔
▪️وفات
طارق عزیز نے 17 جون 2020ء کو 84 سال کی عمر میں، لاہور میں وفات پائی۔
طارق عزیز کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے مرنے سے قبل اپنی تمام جائداد اپنے پیارے وطن پاکستان کو وقف کردی۔ ان کی وصیت کے مطابق تدفین سے قبل ان کی پراپرٹی اور 4 کروڑ 41 لاکھ روپے کی رقم قومی خزانے میں جمع کرادی گئی
▪️ ترتیب و پیشکش: اظہر رضوی