Daily Roshni News

عائشہ خان۔۔آہ،، اک عہد جو تمام ہوا۔۔

عائشہ خان۔۔

آہ،، اک عہد جو تمام ہوا۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )بچپن میں مدرسہ، سکول، مدرسہ اور پھر مدرسہ، یہی روز کی روٹین تھی جو منہ اندھیرے شروع ہوتی اور رات عشا تک جاری رہتی، ایسے میں میرے جیسوں کے پاس ایک ہی انٹرٹینمنٹ بچ جاتی تھی کہ کسی بھی طریقے سے بس رات آٹھ بجے والا ڈرامہ دیکھ لینا۔۔ چوبیس گھنٹوں میں یہ ایک گھنٹہ ہم اپنی مرضی کا جیتے تھے اور اس گھنٹے میں جو لوگ اپنی اداکاری سے ہمیں محظوظ کرتے تھے ان سے ایک خاص قسم کی جذباتی وابستگی سی ہو گئی تھی ، اور یہ وابستگی کب عشق میں بدل گئی پتہ ہی نہ چلا۔۔

کیسے کیسے باوقار اور عہد ساز لوگ اس ٹی وی کی چھوٹی سی سکرین کے ذریعے ہمارے دل میں گھر کر گئے، خیام سرحدی، جمیل فخری، قوی خان، حسام قاضی، عابد علی، نثار قادری، سجاد کشور،ضمیر فاروق،معین اختر،قاضی واجد، رشید ناز، گلاب چانڈیو، جمشید انصاری،خالد بٹ، ذہین طاہرہ، نائلہ جعفری، حمیرہ عابد،نگہت بٹ،طاہرہ واسطی وغیرہ وغیرہ ،،

ان ہی بڑے ناموں میں سے ایک بڑا نام عائشہ خان بھی تھا، سننے میں آیا ہے وہ انتہائی کسمپرسی کے عالم میں اس دار فانی سے کوچ کرگئیں، ۔۔۔۔

اس سے زیادہ دلسوز اور کربناک بات یہ ہے وہ پچھلے سات دن سے اپنے فلیٹ میں مردہ پڑی رہیں، اور اڑوس پڑوس میں موجود زندہ لاشوں کو  مرحومہ کے جسم سے اٹھتے تعفن نے یہ باور کرایا کہ پڑوس میں کوئی واقعی مر گیا ہے۔۔ تنہائی اور بے بسی کے عالم میں نہ جانے انھوں نے کتنی آوازیں دی ہونگی، کس کس کو پکارا ہوگا، مگر یہ آوازیں اس چار دیواری کے اندر ہی کہیں دب کے مر گئی ہونگی، سچ ہے بڑا  کربنکاک  اور تکلیف دہ ہوتا ہے یوں تنہائی میں بغیر کچھ کچھ کہے بغیر کچھ سنے مرجانا ۔۔

پتا نہیں مجھے کیوں لگتا ہے،کہ ہمارے معاشرے کا ہر وہ بڑا آدمی چاہے اس کا تعلق سائنس و ٹیکنالوجی سے ہو، میڈیا سے ہو، آرٹس سے ہو، ایجوکیشن سے ہو، اداکاری ایند شوبز سے ہو، سپورٹس اینڈ گیمز سے ہو،تھیٹر سے ہو یا دیگر کسی فنون لطیفہ سے ہو، بروز حشر ،رب العزت سے ایک سوال پوچھے گا کہ ہمیں پاکستان جیسے مردہ معاشرے میں کیوں پیدا کیا؟؟؟

ہماری ہاں صفائی کرنے والا چوڑا، تھیٹر کرنے والا مراثی، گانے والا ڈوم کنجر جیسے گھٹیا القابات سے پکارا جاتا ہے، معاشرے میں اس کی کوئی قدر نہیں ہوتی، وہ الگ بات اور ہماری منافقت کے ہم ان سے اپنا کام بھی نکالتے رہتے ہیں اور اس سے بڑی بے حسی کہ ہماری گورنمنٹ بھی ایسے بڑے ناموں کی فلاح کیلیے کوئی اسٹیرٹیجی اور نظام نہیں رکھتی ، جس کا انجام عائشہ خان جیسے بڑے قد آور لوگوں کا انتہائی کسمپرسی کے عالم میں دنیا سے چلے جانا ہے۔

مہدی حسن، ببوبرال، مستانہ،ڈاکٹر قدیر، ایدھی صاحب، ڈاکٹر رتھ فاؤ وغیرہ جیسے بڑے لوگ ساری قوم پر کتنا بڑا قرض چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے،،، اور ہمیں پروا بھی نہ ہوئی، کہیں پڑھا تھا کہ ناقدرے لوگ اور ناقدرے معاشرے پھر بے مراد ٹھرا دیے جاتے ہیں بالکل بنجر زمین کی طرح، شاید ہم بھی بے مراد ہی ٹھہرا دیے جائیں۔۔۔

اپنا آپ پہچانیے، ان لوگوں کی قدر کیجیے جنھوں نے نے کسی بھی طور پر ہمارے معاشرے کیلیے کچھ نا کچھ خدمات سرانجام دی ہوں ، بھلے وہ ایک چٹکلے اور جگت کے ذریعے آپ کی آنکھوں سے آنسو ہٹا کر لبوں پر مسکراہٹ ہی کیوں نا بکھیری ہو۔۔

جو سب کے کام آئے وہی اکثر نظر انداز ہوتا ہے

کبھی احسان بھول جانا یہاں دستورِ بازار ہوتا ہے

محبت ہو، خلوص ہو، سمجھتے ہیں یہ کمزوری

یہ دنیا صرف مطلب کی، یہاں ہر شخص بیزار ہوتا ہے

عائشہ خان۔۔

آہ،، اک عہد جو تمام ہوا۔۔

عمران حمید بنگش / Film Walay فلم والے

Loading