نور پنکھ۔۔
کہتے ہیں جنگل کی حفاظت دو آنکھوں اور ایک ناک سے ہوتی ہے
ایک وہ آنکھ جو آسمان سے دیکھتی ہے،
اور ایک وہ ناک جو زمین کے نیچے چھپی ہوا کو بھی سونگھ لیتی ہے۔
ایک پہاڑی وادی تھی… اتنی خاموش کہ ہر پتا سانس لیتا محسوس ہوتا،
جہاں بادل نیچے اتر کر درختوں کو چومتے،
پرندے دھنیں بکھیرتے،
اور زمین ہر قدم پر ایک نئی کہانی سناتی۔
اسی جنگل میں دو دوست رہتے تھے
آرو، عقاب…
وہ جو آسمان کے ہالے میں اڑتا،
اونچی چٹانوں پر تنہا گھونسلہ بناتا،
ہوا کے بہاؤ سے سمت پہچانتا،
اور چار میل دور ایک ہلکی سی جنبش بھی محسوس کر لیتا۔
وہ دھوپ کے رنگ کو پہچانتا تھا،
اور بادل کے سائے میں وقت کا پتا لگا لیتا۔
ہر صبح، وہ پہاڑ کی چوٹی سے سورج کو خوش آمدید کہتا،
اور ہر شام روشنی کو دعا دے کر واپس لوٹتا۔
زیمو، بھیڑیا…
وہ جو جنگل کی گہری تاریکی میں رہتا،
اپنے خاندان کے ساتھ، اپنے قبیلے کے ساتھ۔
اس کی ناک میں ہزاروں خوشبوئیں محفوظ تھیں۔
پرانی مٹی، گلے سڑتے پتے، اور دور دور کے خطرات کی آہٹ۔
وہ اپنے بچوں کو خاموشی سے راستے سکھاتا،
اور شکار کو صرف اس وقت چُھوتا جب پیٹ خالی ہوتا۔
بھیڑیا ایک غیرمعمولی طور پر حساس اور باشعور جانور ہے، جو اپنی چھٹی حس سے نہ صرف خطرہ بھانپ لیتا ہے بلکہ زمین، ہوا اور فضا میں چھپی تبدیلیوں کو بھی محسوس کر لیتا ہے۔ اس کی ناک انسان کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ طاقتور ہوتی ہے، جو نہ صرف خوشبو بلکہ جذبے، بیماری، اور حتیٰ کہ موسم کی آتی ہوئی تبدیلی تک کو سونگھ سکتی ہے۔ زمین کی تھرتھراہٹ، درختوں کی خاموشی، اور ہوا کی رفتار سب اس کی اندرونی بصیرت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جسے چھٹی حِس کہتے ہیں۔۔
پھر ایک رات…
جنگل کی سانس بدلی،
ندی کی روانی نے انگڑائی لی،
درختوں نے سرگوشی کی۔
“نور پنکھ جاگنے والا ہے…”
نور پنکھ،
علم، آگہی اور بصیرت کا
ایک ایسا پودا جو ہر صد سال بعد کھلتا ہے،
وہ جو جنگل کے دل میں سانس لیتا ہے،
جو بیمار درختوں میں زندگی بھرتا ہے،
اور جانوروں کے بیچ وہ زبان سکھاتا ہے،
جو لفظوں سے نہیں، دل سے بولی جاتی ہے۔
لیکن اسے پانے کے لیے درکار تھی
آرو کی نظر،
اور زیمو کی محسوس کرنے والی سونگھ، جسے انسان اپنی زبان میں چھٹی حِس کہتا ہے۔۔۔
آرو نے آسمان سے نگاہ دوڑائی،
بادلوں کے پیچھے کی جنبش کو پہچانا،
پَر سمیٹے اور بولا،
“جنوب مشرق کی طرف کوئی ہلچل ہے،شاید وہی جگہ۔”
زیمو نے زمین پر پنجہ رکھا،
ہوا کو سونگھا،
اور دھیرے سے بولا۔۔
“ہاں… ہوا میں پرانی نمی، خاموشی میں جاگی ہوئی سانس… کچھ تو بدلا ہے۔”
راہ میں ان کی ملاقات ہوئی…
کچھوا دادی سے،
جس کی پشت پر کائی اور وقت کی داستانیں چمک رہی تھیں۔
اس نے دھیرے سے گردن اٹھائی اور کہا۔۔۔
“نور پنکھ تمہیں تبھی ملے گا
جب آسمان کی آنکھ اور زمین کی ناک۔۔۔
ایک ساتھ دیکھیں،
ایک ساتھ محسوس کریں۔”
وہ دونوں ایک پرانی غار تک پہنچے۔
دیواریں نم تھیں،
ہوا سانس روکے کھڑی تھی۔
آرو نے بلندی سے روشنی اندر گرائی،
زیمو نے سونگھ کر گہری خاموشی کو چُھوا۔
ایک پتھر پر عبارت لکھی تھی۔
“جو صرف دیکھتا ہے، وہ صرف شکل پہچانتا ہے؛
جو صرف سونگھتا ہے، وہ صرف نشانی جانتا ہے؛
مگر جو دونوں کرتا ہے، وہ سچ تک پہنچتا ہے۔”
آرو نے پَر پھیلائے،
زیمو نے زمین پر قدم جمائے۔
دونوں نے ایک ساتھ قدم بڑھایا،
اور غار کے بیچوں بیچ،
زمین نےجیسے ہولے سے سانس لی…
پھر وہ منظر ابھرا۔۔
نور پنکھ…
ایک پودا جو چمکتا تھا،
نیلے آسمان کی جھلک،
سبز زمین کی جڑوں سے بندھا ہوا۔
ایسا لگا جیسے روشنی کو پتوں نے اوڑھ لیا ہو۔
درختوں نے گیت گایا،
ندی نے کلکاریاں ماریں،
اور ہوا نے جیسے نئی زبان سیکھ لی۔
اگلی صبح…
آرو نے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے جھانکا،
زیمو نے زمین سے آسمان کو دیکھا۔
وہ بولے کچھ نہیں،
مگر ان کے درمیان خاموشی میں شکرگزاری، فہم،
اور ایک ایسا وعدہ تھا جو زبان سے نہیں، دل سے بولا گیا۔
سورج کی پہلی کرن جب نور پنکھ پر پڑی،
تو اس نے ایک گہری سانس لی،
جیسے پوری وادی نے آنکھ کھول دی ہو۔
اور اس دن کے بعد…
جنگل کچھ بدل گیا۔
بچوں کے خواب رنگین ہو گئے،
بوڑھے درختوں نے نئے پتے نکالے،
ندی کے گیت زیادہ خوبصورت ہو گئے،
اور کہانیاں…
وہ ہوا میں تیرنے لگیں۔
کہتے ہیں جہاں نور پنکھ کھلا،
وہاں اب ہر رات ایک مدھم سی روشنی رہتی ہے،
جو ان سب کو راستہ دکھاتی ہے
جو اپنی نگاہوں میں آرو کی گہرائی
اور اپنے دل میں زیمو کی سونگھ ،محسوس کرنے والی حِس جگا سکیں۔
ازقلم ربیعہ سلیم مرزا
گوجرانوالہ