Daily Roshni News

آغازِ عِشّق۔۔۔از ۔۔۔کنزہ ظہور

“آغازِ عِشّق”

“از کنزہ ظہور”

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔”آغازِ عِشّق۔۔۔از ۔۔۔کنزہ ظہور”)میری طرف دیکھ کر بات کرو اور بنالڑ کھرائے۔۔۔ زبان اسے دیکھ کر سختی سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔ اب وہ جو د ڈریسنگ مرر کے سامنے اپنی برانڈ ڈ گھڑی پہن رہا تھا۔۔۔ زبان کو اس کا خود سے ڈر ناذرا بھی پسند نہیں آیا تھا۔۔۔ اسے تو کل والا اس کا شیرنی والا روپ ہی پسند آیا تھا۔۔ نہیں آیا تھا۔۔۔ اسے تو کل والا اس کا شیرنی والا روپ ہی پسند آیا تھا۔۔

وہ آنٹی کہہ رہی آپ جو ڈریس لے کر آئے ہیں وہ تو دے۔۔۔ کنزہ زبان کو ایک نظر دیکھتی جلدی سے بولی تھی جبکہ اس کی اتنی سپیڈ پر زیان نے اپنا نچلہ لب ہو نٹوں میں دبا کر اپنی ہنسی روکی تھی۔۔۔۔وہ اس سے پہلے بھی ڈرتی تھی لیکن کل والے واقع کے بعد وہ اس سے اور زیادہ خوف کھاتی تھی۔۔۔ ہم۔۔ زبان اس کو ایک نظر دیکھتا ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔ وہاں سے دو بیگ ہاتھ میں پکڑے وہ واپس آیا تھا۔۔۔ کنزہ ابھی تک نظریں جھکا کر کھڑی تھی۔۔ پکڑوا سے۔۔اس میں تمہار اڈریس،

جیولری اور کچھ پر سنل سامان بھی موجود ہیں۔۔۔ زبان اس کو بیگ دیتا شرارت سے گویا ہوا تھا یہ بات سچ تھی کہ اس کا ضرورت کا سامان سارا لے کر آیا تھا۔۔۔

جب کے کنزہ لفظ پر سنل سنتے ہی کانوں کی لوں تک سرخ پڑی تھی۔۔۔ اس کے ہاتھ سے بیگ چھوٹ کر زمین پر گرے تھے۔۔ اس کا دل کر رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔۔۔ زیان اس کا چہرہ دیکھتا اپنے حواس کھو رہا تھا۔۔

میں نے تو اندازے کے طور پر لیا ہیں اگر تمہیں سائز پورانہ آئے تو مجھے واپس کر دینا میں جا کر چینج کر والوں گا۔۔۔ زیان کنزہ کا شر میلا روپ دیکھتے اسے زیادہ چھیڑ رہا تھا۔۔۔۔ جبکہ کنزہ اس کی طرف دیکھتے کمرے سے بھاگ کی تھی۔۔۔

پیچھے زبان کا ایک جاندار قہقہہ گنجا تھا۔۔۔

دعا اس وقت تیار ہو کر فجر کے کمرے میں جارہی تھی۔۔۔ ابھی وہ اپنے ہی دھیان میں جارہی تھی جب کسی وجود سے زور دار ٹکر ہوئی تھی۔۔۔ اس سے پہلے وہ گرتی آیان نے اس کی کمر سے پکڑ کر تھام لیا تھا۔۔۔ گرنے کے ڈر سے وہ اپنی آنکھیں بند کر کے کھڑی تھی

۔۔۔ آیان اس کو دیوانوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔۔۔

وہ لگ ہی اتنی جو بصورت رہی تھی۔۔۔۔ گرے اور ریڈ کلر کا جو بصورت سا لہنگا پہنا ہوا تھا۔۔۔ کندھے پے جو بصورت طریقے سے ڈو پٹا میچ تھا۔۔۔۔ سمپل سے میک اپ پر گلڑی گرے رنگ میں آنکھیں۔۔۔۔ اس کے لپسٹک سے بھرے بھرے ہونٹ دیکھ کر آیان کو اپنے گلے میں کانٹے چھتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔ اس سے پہلے وہ دعا کے ہونٹوں پہ جھک کر کوئی جسارت کر تا خود کو محفوظ پا کر دعا نے آنکھیں کھول کر اپنے اوپر جھکتے۔۔

ہوئے آیان کو دیکھا تھا۔۔۔ اور اس کو زور سے دھکا دیا تھا۔۔۔ اگر پیچھے صوفہ نہ پڑا ہوتا وہ زمین پر گرتا۔۔۔ دعا نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا ۔۔۔ وہ اپنی پلک جھپکنا بھول گئ تھی۔۔۔ وہ اس کے ساتھ کی گی کیچنگ میں کسی ریاست کا شہزادہ معلوم ہو رہا تھا۔۔

اگر اتنے پیار سے دیکھو گی تو ضارب بھائی کے ساتھ میں اپنا نکاح بھی پڑھوالوں گا۔۔۔اور پھر ساری عمر تم مجھے دیکھتی رہنا اور میں تم پر اپنی شد تیں نچھاور کرتار ہوں گا۔۔۔ آیان دعا کی سبز آنکھوں پر پھونک مارتا کھمبیر آواز میں بولا تھا۔۔۔ اس کے اس طرح بولنے پر دعا کی ڈیڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پیدا ہوئی تھی۔۔۔ یہ تو نکاح کے بعد ہی پتا چلے گا کہ کون کس پہ کتنی شد تیں نچھاور کرتا ہے۔۔۔۔ دعا بھی خود کو کمپوز کرتی آیان کو خود سے دور کرتی مقابلہ کرنے والے انداز میں بولی تھی ۔۔۔ اس کے دھکا دینے پر آیان کو وہ ایک انچ بھی نہیں ہلا پائی تھی۔۔۔ اس کے اس انداز پر آیان نے داد دینے والے انداز پہ آئیبر وا چکا یا تھا۔۔

ایسے تو میں اس دنیا کا خوش نصیب انسان ہوں گا۔۔۔ جسے اپنی اولاد کو اس دنیا میں لانے کے لیے کوئی محنت ہی نہیں کرنی پڑے گی کیونکہ میری موسٹ رمینٹک بیوی ہی سب کچھ کرلے گی۔۔۔۔ آیان اس کی بیوٹی بون پہ اپنے ہونٹوں کا لمس چھورتا ہوا خمار آلودہ لہجے میں بولا تھا۔۔

بہت ہی کوئی بے شرم انسان ہوں۔۔۔۔ دعا آیان کی گرفت ڈھیلی محسوس کرتی اسے دھکاد تیی نیچے کی طرف بھاگی تھی۔۔۔ اس سے پہلے وہ نیچے جاتی آیان نے ایک ہی جسٹ میں اس تک پہنچا تھا اسے کلائی سے تھامتے وہ اسے دعا کے کمرے میں لے گیا تھا۔۔۔

اس سے پہلے دعا اپنے کندھے سے نکلی اپنی سریپ صبح کرتی جو پنز نہ لگانے کی وجہ سے باہر نکلی ہوئی تھی آیان نے جلدی سے اس کے ہاتھ تھام کر کر اسے آنکھوں کے اشارے سے کچھ بھی کرنے سے منع کیا تھا

دعا اس کا اشارہ سمجھتی اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی تھی۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی زرا سی بھی مزاحمت پر یہ پاگل شاہ کچھ ایسانہ کر دے جس کی وجہ سے اسے بعد میں شرمندہ ہونا پڑے۔۔

اس کی آنکھیں میچنیں پر آیان گہرا مسکرایا تھا۔۔۔ اس کو دونوں کندھو ں سے پکڑ کر ڈریسنگ مرد کے سامنے بٹھایا تھا۔۔ دعانے ہو ز اپنی آنکھیں ابھی تک نیچی ہوئی تھی۔۔۔ آیان نے اس کی ڈریسنگ مرر سے پنزا اٹھا کر اس کی سٹیپ کو اس کی چولی کے اندر سے اچھے سے سیٹ کیا تھا۔۔۔ آیان کے ہاتھوں کو لمس پاکر وہ شرم سے سرخ پڑ رہی تھی۔۔

اب اپنی آنکھیں کھول لوں اور آگے سے دھیان رکھنا۔۔۔ آیان دعا کے سُرخ چہرے کو دیکھتا سنجیدگی سے بولا تھا جبکہ اس کی سنجیدہ لہجہ محسوس کر کے دعا نے جلدی سے آنکھیں کھولی تھی۔۔

وہ کھڑی ہو کر ابھی باہر کی طرف جاتی جب آیان نے پھر اس کو کلائی سے پکڑا تھا۔۔ دعا میں اب آیان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔

ویسے یہ گرے کے ساتھ بے بی پنک کی میچنگ کون کرتا ہیں۔۔۔ آیان اس کی سٹریپ کا کلر یاد کر تا شرارت سے گویا ہوا تھا جبکہ دعا کا دل کر رہا تھا کہ وہ اس بد تمیز انسان کا منہ توڑ دیں۔۔۔ جس نے پتا نہیں اتنی زیادہ بد تمیزی کہاں سے سیکھ لی تھی۔۔۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ تمہیں میچنگ دیکھنے کا بہت شوق ہیں اس لیے اب سے سارے ڈریس میرے تم لے کر آؤ گے۔۔۔ اور اس کے ساتھ میچنگ بھی کر کے آؤ گے۔۔۔ دعا بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔۔۔ آیان کی آنکھوں میں شرارت دیکھتی وہ ایک ایک لفظ چبا کر بولی تھی

اس بد تمیز انسان کا منہ توڑ دیں۔۔۔ جس نے پتا نہیں اتنی زیادہ بد تمیزی کہاں سے سیکھ لی تھی۔۔۔

مجھے نہیں پتا تھا کہ تمہیں میچنگ دیکھنے کا بہت شوق ہیں اس لیے اب سے سارے ڈریس میرے تم لے کر آؤ گے۔۔۔ اور اس کے ساتھ میچنگ بھی کر کے آؤ گے۔۔۔ دعا بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔۔۔ آیان کی آنکھوں میں شرارت دیکھتی وہ ایک ایک لفظ چبا کر بولی تھی ذہ نصیب ۔۔۔ اگر آپ یہ موقع ہمیں دیں گی تو ہم تو اپنے آپ کو اس دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان تصور کریں گے ہم۔۔ لیکن میری ایک شرط ہیں کہ اگر یہ سب میں لے کر آؤں گا تو پہنوں گا بھی میں خود ہی۔۔۔ آیان اس کے نشیب و فراز پر اپنی نظریں گاڑھتا بے باکی سے بولا تھا۔۔۔

بد تمیز شاہ۔۔۔ اس کی نظریں اپنے بدن پہ محسوس کر کے دعا شرم سے آدھی ہو رہی تھی۔۔۔ اس لیے وہ اسے ایک نئے لقب سے نوازتی وہاں سے بھاگ گئی تھی۔۔۔ پیچھے سے آیان کا ایک خوبصورت قیقہ کمرے کی زینت بنا تھا

تمہیں کیا لگتا ہیں دعا بے بی کہ تم مجھے اپنی شدتوں سے سرخ کر دونگی لیکن یہ صرف تمہاری غلط فہمی ہیں۔۔۔ میں تمہیں اپنی شدتوں سے اس طرح روشناش کرواؤ گا کہ تم اپنی نظریں میرے سامنے نہیں اُٹھا پاؤ گی۔۔۔ کیونکہ میں زیان عابد علی شاہ کا بھائی ہوں جس کو سب رومینس کا استاد کہتے ہیں۔۔

آخر کار اس کے تھوڑے سے جراثیم میرے اندر تو آئے ہو گے۔۔۔ آیان اپنی نظریں دورازے پہ گاڑھتا جہاں سے ابھی دعا گئی تھی دلکشی سے بولا تھا۔۔۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ دعا زیان کو بھی اپنے

رومینس میں پیچھے چھوڑنے والی ہیں۔۔۔

کا یان جو تیار ہو کر ابھی اپنے کمرے سے ہی نکلا تھا۔۔۔ نیچے جانے کی بجائے اس کا رخ حور کے کمرے کی طرف تھا۔۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ

اس کی پسند کی گئی ڈریس میں اس سے پہلے کوئی اور دیکھے۔۔۔ حور سے ملنے کے بعد اس کا ارادہ فجر سے ملنے کا تھا۔۔۔

کا یان نے جیسے ہی دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے دروازے پہ ہاتھ رکھا ہی تھا کہ دروازہ خود بخود ہی کھلتا چلا گیا تھا۔۔ اس لیے وہ بھی بنا کوئی آواز دیے اندر داخل ہو گیا تھا۔۔ حور جس نے میک اپ پہلے کر والیا تھا اب اس کے لہنگے کی چولی کی زپ بند نہیں ہو رہی تھی۔۔

وہ پچھلے دس منٹ سے یہی بند کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔۔ اس نے کنزہ کو بھی فون کیا تھا لیکن اس نے بھی فون نہیں اٹھایا تھا۔۔ اس لیے اب با قاعدہ وہ رونا شروع ہو چکی تھی جس کی وجہ سے اس کا تھوڑا تھوڑا میک اپ خراب ہو نا شروع گیا تھا۔۔

ڈریسنگ مرر سے اس کو روتا دیکھ کر کایان ایک ہی جسٹ میں اس تک پہنچا تھا۔۔۔

کا بیان کو اپنے سامنے دیکھ کر حور اس کے گلے لگ گئی تھی اور اس کے رونے میں اور تیزی آئی تھی۔۔۔۔ اس کو رو تاد دیکھ کر کا یان بہت زیادہ پریشان ہوا تھا۔۔۔۔ جبکہ اس کے گلے لگنے کی وجہ سے کا یان کچھ پل کے لیے ساکت ہوا تھا۔۔شش۔۔ رونا بند کرو۔۔۔ گندے بچے روتے ہیں۔۔۔ اور تم میرا گندا بچہ تھوڑی ہوں۔۔۔ کا یان خود کے جذبات پر کنٹرول پاتا حور کو چپ کروارہا تھا۔۔۔ جو کا یان کے سینے کے اندر گھس جانا چاہتی تھی۔۔۔ کا یان کے بولنے پر حور نے رونے میں اور زیادہ سیٹ پکڑی تھی۔۔۔ اچھا بتاؤ کیا ہوا ہے۔۔۔ کیوں رورہی ہیں میری حور ۔۔۔ کسی نے کچھ کہا ہیں۔۔۔ کا یان حور کو خود سے دور کر تا نرمی سے پوچھ رہا تھا۔۔۔ اگر وہ ایک منٹ اور ایسے اس کے سینے سے لگی رہتی تو کا یان نے چھوٹی سے گستاخی تو ضرور کر دینی تھی۔۔۔ اور بعد میں حور نے ہی کا یان سے ناراض رہنا تھا۔۔۔

وہ

۔۔۔ میری۔۔۔۔۔ بیک۔۔۔۔سائیڈ۔۔۔۔۔ زپ۔۔۔۔۔ بند۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ ہو۔۔۔ رہی۔۔۔ اور ۔۔۔۔ رونے۔۔۔۔ کی۔۔۔۔و جہ۔۔۔۔ سے۔۔۔ میرا۔۔۔۔ میک۔۔۔اپ۔۔۔ بھی۔۔۔ خراب۔

۔۔ ہو۔۔۔۔ گیا۔۔۔ ہیں۔۔۔ اب۔۔۔۔ میں۔۔۔ نکاح۔۔۔ میں۔۔ ۔۔ کیسے۔۔۔۔ شرکت۔۔۔ کروں۔۔۔ گی۔۔۔ حورسوں سوں کرتی ایک ایک لفظ کر کے بولی تھی۔۔۔

اس کے اس طرح بولنے پر کا یان کا دھیان اس کی طرف اُٹھا تھا۔۔ وائٹ کلر کے لہنگے کے ساتھ بلیو کلر کی چولی میں بالوں کو کھلا چھوڑے ۔۔۔ ڈوپٹا اس کا بیڈ پر پڑا تھا۔۔ رونے کی وجہ سے اس کی گالوں سے بلش اُتر گیا تھا۔۔۔ آنکھوں میں سارا کا جل پہل گیا تھا۔۔ وہ اس روپ میں بھی کا بیان کے دل پر بجلیاں گرار ہی تھی۔۔

اچھا کوئی بات نہیں میں ہوں نہ میں اپنی حور کو بہت اچھی طرح تیار کر دونگا۔۔۔ جیسے بچین میں کرتا تھا۔۔۔ کا یان حور کو ڈریسنگ مرد کی چئیر کے سامنے بٹھاتا ہوا بولا تھا۔۔ یہ بات سچ تھی کہ حور کو اگر بچین میں کہیں جانا ہوتا تھا تو اسے ہی کا یان ہی تیار کرواتا تھا۔۔

جب کے پہلے تو حور تھوڑی سی ہچکچائی تھی لیکن پھر نکاح کا وقت یاد کرتے وہ جلدی سے سر اثبات میں ہلاتی بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔۔

کا یان نے سب سے پہلے اس کی پھولی پھولی گالوں پہ بلش لگایا تھا۔۔۔

اس کے بعد اسے آئی شیڈ لگائی تھی جو پہلے ہی کنزہ لگا کر گئی تھی۔۔۔ اس کے بعد اس کی سبز نگینوں جیسی آنکھوں میں کاجل کی ایک گہری لکیر کھینچی تھی۔۔۔ اس کی ہونٹوں پر لپسٹک لگا کر اس نے آخر میں اس کی۔ زپ بند کی تھی۔۔۔ اس کے بعد کا یان نے آئینے میں سے اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھا تھا جو اپنی تیاری ہونے پر کھلکھلا رہی تھی۔۔۔ کا یان نے اسے اور خود کو آئینے میں دیکھا تھا وہ دونوں ایک مکمل جوڑی لگ رہی تھی۔۔۔ کا یان نے بھی اس وقت سفید شلوار قمیض کے اوپر بلیو واسکٹ پہنی تھی۔۔ بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وہ نیلی آنکھوں والا مغرور شہزادہ بلا کا خوبصورت لگ رہا تھا۔۔۔

کایان اچھے سے اس کا ڈوپٹا سیٹ کیے اس کے ماتھے پہ پیار سے بوسہ دیے اس کو نیچے جلدی آنے کا بول کر وہ فجر کے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ اس کے جانے کے بعد حور کے چہرے پر قوس قزح کے

رنگ موجود تھے جو صرف کا یان کے لمس کی وجہ سے تھے۔۔ کا یان حور کے کمرے سے نکلنے کے بعد فجر کے کمرے میں داخل ہوا تھا

فجر جو اس وقت تیار ہو کر اپنی دوستوں اور کزنز کے درمیان زبر دستی مسکرارہی تھی۔۔ کا یان کے روم میں داخل ہوتے ہی سب روم سے باہر چلی گئی تھی۔۔ فجر جو کب سے اپنے آنسوؤں پر باندھا بیٹھ کر بیٹھی تھی۔۔۔ اب اپنے بھائی کو دیکھ کر اسے اپنے سارے خسارے یاد آئے تھے۔۔۔ اگر اس کا بھائی اس کے لیے سٹینڈ لے لیتا تو آج اسے اپنی محبت کے لیے امتحان نہ دینے پڑتے۔۔۔ یہی سوچ کر فجر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔۔

اس کے جانے کے بعد حور کے چہرے پر قوس قزح کے رنگ موجود تھے جو صرف کا یان کے لمس کی وجہ سے تھے۔۔

کا یان حور کے کمرے سے نکلنے کے بعد فجر کے کمرے میں داخل ہوا تھا

فجر جو اس وقت تیار ہو کر اپنی دوستوں اور کزنز کے درمیان زبر دستی مسکرارہی تھی۔۔

کا یان کے روم میں داخل ہوتے ہی سب روم سے باہر چلی گئی تھی۔۔ فجر جو کب سے اپنے آنسوؤں پر باندھا بیٹھ کر بیٹھی تھی۔۔۔ اب اپنے بھائی کو دیکھ کر اسے اپنے سارے خسارے یاد آئے تھے۔۔۔ اگر اس کا بھائی اس کے لیے سٹینڈ لے لیتا تو آج اسے اپنی محبت کے لیے امتحان نہ دینے پڑتے۔۔۔ یہی سوچ کر فجر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔۔ اپنی بہن کو اس طرح روتا دیکھ کر کا یان کا دل کسی نے متھی میں جکڑا تھا

فجر رونا بند کروں۔۔۔ میک اپ خراب ہو جائے اور جب تم نیچے جاؤں گی تو سب تمہیں دیکھ کر ڈر سے بھاگ جائے گے ۔۔

کا یان فجر کو اپنے سینے سے لگا تا شرارت سے بولا تھا۔۔۔ آپ کو جب داجی نے بھیجا تھا کہ آپ مجھ سے پوچھے گے کہ مجھے یہ رشتہ منظور ہیں یا نہیں تو پھر آپ نے زبان کو کیوں بھیجا۔۔۔ فجر کا یان سے  الگ ہوتی اپنے آنسو صاف کرتی کا یان کو دیکھ کر شکوہ کر رہی تھی۔۔۔ جو وہ اس سے اتنے دن سے کرنا چاہتی تھی۔۔

وہ بھی جانا چاہتی تھی کہ اس کے بھائی کو بھی لگتا تھا کہ اس کی بہن اس کی خوشیوں میں رکاوٹ پیدا کرے گی۔۔

میں تو بزی۔۔ اس سے پہلے کا یان اپنی بات مکمل کر تا فجر نے اس کی بات در میان میں ہی کائی تھی۔۔

اب آپ یہ نہ کہیے گا کہ آپ پورا دن کام میں بزی تھے یا آفس میں موجود تھے آپ کو میں نے پورا دن گھر میں دیکھا تھا۔۔ اور آپ اس لیے نہیں آئے تھے کہ اپنی بہن کے آنسو کو دیکھ کر آپ مجبور نہ ہو جائے اور آپ کو میری وجہ سے اپنی دوستی اور محبت چھوڑنی پڑے۔۔

فجر کرب سے بولتی آخر میں استھزایا مسکرائی تھی۔۔۔ اس کی باتوں پر کا یان کی نظریں جھک گئی تھی۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے ری ایکٹ کرے۔۔ اس لیے وہ کسی غیر نقطے کو گھور رہا تھا۔۔ وہ چاہتا تھا کہ فجر اپنے اندر کا سارا غم نکال لے اس لیے وہ ابھی تک خاموش تھا۔۔ آپ کو کیا لگتا ہیں میں اپنی خوشی کی وجہ سے آپ کی خوشیوں کے درمیان آؤں گی۔۔ نہیں میری جگہ کوئی اور بہن بھی ہوتی تو وہ بھی کبھی اپنے بھائی کی خوشیوں میں رکاوٹ نہ بنتی اور آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں آپ کو مجبور کروں گی کہ آپ میری شادی زبان سے کروادے۔۔۔

اتنا مجھے دکھ زبان کا خود سے دور جانے کا نہیں ہو رہا جتنا مجھے آپ کی بے اعتنائی نے مارا ہیں۔۔۔ فجر کا یان کو ایک نظر دیکھتی کرب سے بولی تھی کا بیان ابھی تک اس سے نظریں نہیں ملا پارہا تھا وہ جو کچھ بھی کہہ رہی تھی وہ سچ کہہ رہی تھی۔۔ مجھے معاف کر دوں فجر لیکن میں حور اور زبان کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔۔ میں اپنے معاملے میں خود غرض بن گیا تھا۔۔ کا یان فجر کو اپنے سینے سے لگاتا اس کے ماتھے پہ بوسہ دیتا اس سے معافی مانگ رہا تھا۔۔ اس کو واقع زیان کو نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔۔

میں نے آپ کو معاف کیا اور ۔۔۔ اس سے پہلے فجر اپنی بات مکمل کرتی حور اور دعا بغیر نوک کیے اندر داخل ہوئی تھی۔۔ اوایم سوری مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ اندر ہیں میں تو بس اپنی بھابھی کو دیکھنے آئی تھی کہ کہیں وہ میرے بھائی سے زیادہ پیاری تو نہیں لگ رہی۔۔

دعا فجر کو کایان کے سنے سے لگے دیکھتی شرارت سے بولی تھی ۔۔۔ جبکہ ۔۔۔۔۔ حور تو کا یان کی کمرے میں کی گئی حرکت پر سرخ پڑ رہی تھی ۔۔۔ کوئی بات نہیں تم لوگ بیٹھو میں نیچے جاکر مہمانوں کو دیکھتاکا یان حور پر ایک نظر ڈالے دعا کے سر پر ہاتھ رکھتا باہر کی طرف بڑھ گیا تھا

اس کے جاتے ہی حور نے گہری سانس لی صد شکر ھے کہ دعا کی نظر حور پہ نہیں پڑی تھی نہیں تو ہر حال میں اس کے اتنے سرخ چہرے ۔۔۔۔۔ ہونے پے سوال کرتی

کا یان کے جاتے ہی اب دعا فجر کو ضارب کے نام سے چھیڑ رہی تھی جس میں فجر سے زیادہ حور شرما رہی تھی

اس وقت سب مہمان شاہ حویلی میں آچکے تھے۔۔۔ میڈیا کے کچھ خاص ہی لوگوں کو اندر آنے کی دعوت دی گئی تھی۔۔۔ ضارب بھی اس وقت سٹیج پر بیٹھا تھا۔۔ اس کے ساتھ ہی کا یان اور آیان بھی موجود تھے۔۔۔ زبان کو صرف اپنی نظریں ادھر اُدھر گھما کر کسی کو تلاش کر رہا تھا۔۔

مرد اور عورتوں کے لیے کوئی علیحدہ انتظام نہیں تھا۔۔۔ سب لوگ اکھٹے ہی کھڑے ضارب کے نکاح کی تقریب انجوائے کر رہے تھے ۔۔۔ حور اپنی دوستوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی۔۔ دعا صرف ادھر اُدھر گھوم کر سب سے خوشدلی سے مل رہی تھی۔۔

آیان تو بس اس نوٹنکی کو دیکھ رہا تھا۔ جو تتلی بنی گھوم رہی تھی۔۔۔

ابھی وہ سب باتیں کر رہے تھے۔۔ جب و قاص علی شاہ عابد علی شاہ زاہد علی شاہ مولوی کو لے کر سٹیج پر آئے تھے۔۔ ان کو دیکھ کر سب نے اپنی باتوں پر بریک لگائی تھی۔۔۔۔ مولوی صاحب ضارب سے نکاح پڑھوا کر فجر کے کمرے میں گنے تھے۔۔۔ دس منٹوں بعد دونوں طرف سے نکاح قبول ہونے پر مبارک باد کا شور اُٹھا تھا۔۔ ضارب کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ وہ اپنی محبت کو پاکر ایسے مسکرا رہا تھا جیسے پوری دنیا جیت لی ہو۔۔۔ سب نے اس کو گلے لگا کر مبارک باد دی تھی وہ سب ایک دوسرے کا مٹھائیوں سے منہ میٹھا کر وار ہے تھے۔ آیان تو سب کو کھلا کم سب کے منہ میں زبردستی گھسا رہا تھا۔ اب اس کی نظر دعا پہ ٹکی ہوئی تھی جو بلکل سب کو اس کی طرح ہی مٹھائی کھلا رہی تھی۔۔۔

نکاح میں آئے ہوئے لڑکوں کی نظر صرف دعا پر ٹکی ہوئی تھی۔ آیان ایک نظر سب لڑکوں کو دیکھتا پھر دعا کو دیکھ رہا تھا۔ جو لا پر واہ بنی صرف اپنے بھائی کے نکاح پر خوش ہو رہی تھی۔۔۔۔ آیان دعا کو بعد میں سبق سکھانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔ کا یان کی نظر حور پر پڑی تھی۔ جو اسی کی طرف ہی آرہی تھی۔ اس سی پہلے وہ سٹیج پر آتی۔ کا یان جلدی سے نیچے اتر اتھا۔ وہ اس کی کلائی سے پکڑ کر ایک سائیڈ پر لے گیا تھا۔ جب کہ اس کی اس حرکت پر کسی کی بھی نظر نہیں پڑی تھی۔ صرف زبان کے علاوہ۔

زیان اس کی اس حرکت پر پہلو بدل کر رہ گیا تھا۔ اس کو پہلے کنزہ پر غصہ تھا۔ جو نجانے کہاں چھپ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ اسے اپنے ساتھ

میچنگ دیکھنے کے لیے بے تاب ہو رہا تھا۔۔ اگر وہ اس کے سامنے آئی تو پتہ نہیں اس کا کیا ہونے والا تھا۔۔ یہ کیا کرنے جارہی تھی تم اوپر۔۔ کا یان اس کو بازو سے پکڑتا اپنے نزدیک کرتا مصنوعی غصے سے بولا تھا ۔۔ وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی کہ اس کا دل بھی نہیں کر رہا تھا اس کو ڈاٹنے کا۔۔۔ جبکہ حور اس کی طرف بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔۔ جو ابھی ٹھوڑی دیر پہلے اتنا پیار کر کے آیا تھا۔۔ اب کیسے اس پہ غصہ کر رہا تھا۔۔ وہ میں ضارب بھائی کو مبارک دینے جارہی تھی۔۔۔۔ حور اس کے اور اپنے درمیان فاصلہ قائم کرتی نظریں جھکا کر بولی تھی ۔۔ پہلے مجھے تو مبارک باد دے دوں آخر کار میری بھی بہن کا نکاح ہوا ہیں۔۔ کا بیان اس کو پھر سے نزدیک کرتا پیار بھرے لہجے میں بول رہا تھا

حور تو بس اس کو دیکھ کر رہ گئی تھی۔۔ جس کے موڈ کا کوئی پتہ نہیں چلتا تھا۔۔ میں آپکو مبارک اس وقت دونگی جب آپ کا نکاح ہو گا۔۔اب میں فجر آپی کو مبارک دونگی اور چھوڑے مجھے جانا ہیں۔

فجر آپی کے پاس۔۔۔ حور معصومیت سے بولتی خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ اس کے نکاح والی بات پر کا یان گہر ا مسکرایا تھا ۔۔ اس کی خود کو چھڑوانے کی کوشش بیکار گئی تھی۔۔۔ کا بیان کی گرفت اس کی کمر پہ اور زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔۔۔

💥💥💥

امید ہے آپ سب کو ایپیسوڈ پسند آئی ہوگی-❤️🥰

Loading