عورت
تحریر آمنہ خواجہ ملتان
سدرہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اُس کی زندگی کا ہر لمحہ قربانی، صبر اور خاموش جدوجہد سے عبارت تھا۔ والدین کی آنکھوں کا تارا، بہن بھائیوں کی محافظ اور شوہر کے لیے سایہ دار درخت جیسی۔ شادی کے بعد اُس نے زندگی کو ایک نئے رنگ میں جینا شروع کیا۔ جہاں اپنی خواہشوں کو پسِ پشت ڈال کر دوسروں کی خوشیوں کو اولین حیثیت دی۔
سدرہ کا دن صبح فجر سے شروع ہوتا۔ بچوں کا ناشتہ، شوہر کا دفتر، ساس سسر کی خدمت اور پھر گھر کے بے شمار کام۔ مگر اُس کے لبوں پر کبھی شکوہ نہ آیا۔ وہ ہر لمحہ خود کو کسی نہ کسی کے لیے وقف رکھتی۔ ایک دن اُس کی چھوٹی بیٹی نے پوچھا، “امی! آپ کبھی تھکتی نہیں ہو؟” سدرہ نے مسکرا کر کہا، “بیٹا! جب انسان محبت سے کچھ کرے تو تھکن نہیں رہتی، خوشی بن جاتی ہے۔”
لیکن وقت کا پہیہ تھمتا نہیں۔ شوہر کی بیماری، معاشی تنگی اور بچوں کی ذمہ داریاں سدرہ کے کندھوں پر بڑھتی گئیں۔ اُس نے سلائی کا کام شروع کیا۔ رات بھر جاگتی، دن بھر دوڑتی، مگر حوصلہ کبھی نہ ہارا۔ اُس کی آنکھوں میں ایک ہی خواب تھا: اپنے بچوں کو ایک کامیاب انسان بنانا۔
ایک دن سدرہ کی بڑی بیٹی نے یونیورسٹی میں اسکالرشپ حاصل کی۔ جب اسے ایوارڈ ملا تو اس نے اسٹیج پر کہا، “میری ماں میری ہیرو ہے، اُس نے اپنی خوشیوں کی قیمت پر ہمیں جینا سکھایا۔ آج میں جو کچھ ہوں، اُس کی بدولت ہوں۔”
یہ سن کر سدرہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ یہ آنسو کمزوری کے نہیں، کامیابی کے تھے۔ اُس لمحے سدرہ نے محسوس کیا کہ اُس کی ساری قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔ وہ صرف ایک ماں نہیں، ایک معمار تھی، ایک رہنما، ایک مشعل راہ۔
خاتون ذات صرف گھر کی چار دیواری تک محدود نہیں، وہ ایک نسل سنوار سکتی ہے، خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتی ہے۔ سدرہ جیسی عورتیں معاشرے کی وہ بنیاد ہیں جن پر پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ وہ خاموشی سے جیتیں ہیں، مگر ان کی کہانیاں بلند آواز میں سنائی دینی چاہییں۔
عورت صرف ایک رشتہ نہیں، وہ خود ایک دنیا ہے۔