دیکھو میرے بھائی،
گندم ہو یا اے آئی…
فیصلہ تمھارے ہاتھ میں ہے.!
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پہلے زمانے کی بات ہے۔وہ وقت جب ہر کسان خود زمین پر ہل چلاتا تھا۔ بیج اپنے ہاتھ سے بوتا تھا۔ پھر بارش کے انتظار میں آسمان کی طرف تکتا تھا۔ جب فصل تیار ہوتی تو خوشبو، محنت، پسینہ، دعا… سب کچھ اس گندم میں شامل ہوتا تھا۔ اس گندم میں زمین کی خوشبو بھی تھی اور کسان کے ہاتھوں کی گرمی بھی۔
پھر وقت بدلا۔
ہل کی جگہ ٹریکٹر نے لے لی۔
ٹریکٹر چلا، زمین جُتی، کام آسان ہوا، وقت بچا۔ انسان کو فائدہ ملا۔ مگر اب زمین کو ہاتھ لگانے کی خوشی کم ہوگئی۔ محنت کا وہ ذائقہ، وہ پہچان ماند پڑنے لگی۔ مگر تب بھی کسان خود ٹریکٹر چلاتا تھا، ہل اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتا تھا، فصل اُگانے کی فکر اس کے اپنے دماغ میں ہوتی تھی۔
وقت اور بدلا۔
اب کچھ لوگ خود بھی ٹریکٹر نہیں چلاتے،
کسی مزدور کو کہہ دیتے ہیں “یہ لو پیسے، جا کر زمین جوت دو۔” زمین، بیج، پانی، کھاد سب مزدور کی فکر۔ مالک صرف بیٹھ کر گنتی کرتا ہے۔
یہی حال اب گندم خریدنے والوں کا ہے۔
پہلا آدمی خود بازار پہنچتا ہے، ریٹ پوچھتا ہے، بوری اپنے کندھے پر اٹھاتا ہے، واپس لاتا ہے۔ اس کو دکان دار کا مزاج بھی پتا ہے، راستے بھی اور اس کے گڑھے بھی یاد ہیں۔
دوسرا آدمی اپنے ملازم کو بھیج دیتا ہے۔
نہ خود چلا ، بس حکم دیا اور کام پورا۔
تیسرا ایک شہزادہ ہے
بازار جانا بھی بوجھ سمجھتا ہے۔ فون نکالتا ہے، “فوڈ پانڈا” سے روٹیاں، سالن منگوا لیتا ہے۔ نہ دکان کی خبر، نہ قیمت کا اندازہ، نہ مال کی کوالٹی کا پتا۔ سب کچھ بس موبائل کی سکرین پر۔ جو پکا پکایا ملا کھا لیتا ہے، نہ پوچھتا ہے کہاں کی گندم تھی، نہ یہ کہ آٹا کس نے پیسا، نہ یہ کہ پانی کون سا تھا۔ جو ملا، کھا لیا۔
یہی حال اب دماغ کا بھی ہو رہا ہے۔
پہلے انسان خود سوچتا تھا۔ خود سوال پوچھتا تھا، کتابیں کھنگالتا تھا، بزرگوں سے پوچھتا تھا۔ دماغ حرکت میں رہتا تھا۔ محنت کرتا تھا۔ پھر گوگل آیا، پھر ChatGPT، پھر اے آئی۔ اب تو صرف سوال لکھو، پورا مضمون، مکمل تجزیہ، مکمل نوٹ، سب حاضر ہو جاتا ہے۔
مگر خطرہ ہے۔!
ایم آئی ٹی MIT University کی تحقیق
نے واضح کر دیا ہے کہ جو لوگ بار بار اے آئی سے اپنے مضامین لکھواتے رہے، ان کی یادداشت کمزور ہوئی، دماغی طاقت کم پڑی۔ وہ سوچنے، تجزیہ کرنے، سوال اٹھانے کی صلاحیت کھو بیٹھے۔ دوسری طرف جنہوں نے خود لکھا، خود دماغ استعمال کیا، ان کا علم تازہ رہا، حافظہ مضبوط رہا، سوچنے کی طاقت قائم رہی۔
یعنی گندم ہو یا دماغ — اصول ایک ہی ہے۔
جو خود ہل چلاتا ہے، وہی زمین کو جانتا ہے۔ جو خود بازار جاتا ہے، قیمت پوچھتا ہے، وہی مہنگائی کا حال سمجھتا ہے۔ جو خود دماغ چلاتا ہے، سوال کرتا ہے، تحقیق کرتا ہے، وہی ترقی کرتا ہے۔
اگر صرف موبائل پر “فوڈ پانڈا” سے روٹیاں منگواتے رہے، تو ایک دن ایسا آئے گا کہ روٹی پکانا بھی بھول جائیں گے۔ اگر ہر کام اے آئی سے کرواتے رہے، تو خود سوچنے کی طاقت بھی ختم ہو جائے گی۔
فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
آپ نے صرف صارف بننا ہے — جو دوسروں کی
بنائی ہوئی چیز کھاتا ہے؟ یا پھر وہ انسان بننا ہے جو خود نئی راہیں نکالتا ہے؟
ٹریکٹر ہو یا AI اے آئی — دونوں کی اپنی جگہ ہے۔
مگر ہاتھ سے ہل چلانے، دماغ سے سوال کرنے، یاد رکھنے، تحقیق کرنے کی عادت — یہ کبھی نہ چھوڑیں۔ کبھی نہیں۔
اللہ ، آپ کو آسانیاں عطا فرمائے
یہی اس تحقیق کا سبق ہے۔
یہی زندگی کا قانون ہے۔ یہی اصل ترقی ہے۔
جاوید اختر آرائیں
22 جون 2025
#جاوید_اختر_آرائیں
(ماخذ: ایم آئی ٹی تحقیق “Your Brain on ChatGPT: Accumulation of Cognitive Debt when Using an AI Assistant for Essay Writing Task”)