Daily Roshni News

بچوں کی تعلیم و تربیت۔۔۔ تحریر۔۔۔علامہ محمد اقبال۔۔۔(قسط نمبر1)

بچوں کی تعلیم و تربیت

تحریر۔۔۔علامہ محمد اقبال

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ بچوں کی تعلیم و تربیت۔۔۔ تحریر۔۔۔علامہ محمد اقبال)علامہ محمد اقبال کا یہ مضمون پہلی بار رسالہ مخزن جنوری1902 میں اور دوسری بار اسی رسالے میں اکتوبر 1917ء کو شائع ہوا۔ ازاں بعد سید عبد الواحد معینی نے

مقالات اقبال (مئی 1963ء) میں شامل اشاعت کیا۔ یہ تحریر ماہنامہ ترجمان القرآن کے شکریہ کے ساتھ پیش کی جارہی ہے۔

تمام قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم ہے۔ اگر طریق تعلیم علمی اصولوں پر مبنی ہو تو تھوڑے ہی عرصے میں تمام تمدنی شکایات کافور ہوجائیں اور دُنیوی زندگی ایک ایسا دل فریب نظّارہ معلوم ہو کہ اُس کے ظاہری حُسن کو مطعون کرنے والے فلسفی بھی اُس کی خوبیوں کے ثناخواں بن جائیں۔

انسان کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ دنیا کے لیے اس کا وجود زینت کا باعث ہو اور جیساکہ ایک یونانی شاعر کہتا ہے: اس کے ہرفعل میں ایک قسم کی روشنی ہو، جس کی کرنیں اوروں پر پڑکے ان کو دیانت داری اور صلح کاری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا سبق دیں۔ اس کی ہمدردی کا دائرہ [روز بروز] وسیع ہونا چاہیے، تاکہ اس کے قلب میں وہ وسعت پیدا ہو، جو روح کے آئینے سے تعصبات اور توہمات کے زنگ کو دُور کرکے اُسے مجلّاو مصفّا کردیتی ہے۔

صدہا انسان ایسے ہیں، جو دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں، مگر اپنے اخلاقی تعلقات سے محض جاہل ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی بہائم [جانوروں] کی زندگی ہے، کیوں کہ ان کا ہرفعل خودغرضی اور بے جا خودداری کے اصولوں پر مبنی ہوتا ہے۔ ان کے تاثرات کا دائرہ زیادہ سے زیادہ اپنے خاندان کے افراد تک محدود ہوتا ہے اور وہ اس مبارک تعلق سے غافل ہوتے ہیں جو بحیثیت انسان ہونے کے، ان کو باقی افراد بنی نوع سے ہے۔ حقیقی انسانیت یہ ہے کہ انسان کو اپنے فرائض سے پوری پوری آگاہی ہو اور وہ اپنے آپ کو اس عظیم الشان درخت کی ایک شاخ محسوس کرے، جس کی جڑ تو زمین میں ہے مگر اُس کی شاخیں آسمان کے دامن کو چھوتی ہیں۔ اس قسم کا کامل انسان بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہرانسانی بچے کی تربیت میں یہ غرض ملحوظ رکھی جائے، کیوں کہ یہ کمال، اخلاقی تعلیم و تربیت ہی کی وساطت سے حاصل ہوسکتا ہے۔ جو لوگ بچوں کی تعلیم و تربیت کے صحیح اور علمی اصول کو مدنظر نہیں رکھتے، وہ اپنی نادانی سے سوسائٹی کے حقوق پر ایک ظالمانہ دست درازی کرتے ہیں، جس کا نتیجہ تمام افراد سوسائٹی کے لیے انتہا درجے کا مضر ہوتا ہے۔

اس مضمون کی تحریر سے ہماری یہ غرض ہے کہ علمی اصولوں کی رُو سے بچپن کا مطالعہ کر کے یہ معلوم کریں کہ بچوں میں کون کون سے قوا کا ظہور پہلے ہوتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کس طرح ہونی چاہیے۔ ہم ایک ایسا طریق پیش کرنا چاہتے ہیں جو محض خیالی ہی نہیں ہے، بلکہ ایک قابلِ عمل طریق ہے، جس سے بچوں کی تعلیم کے لیے ایسے آسان اور صریح اصول ہاتھ آجاتے ہیں، جن کو معمولی سمجھ کا آدمی سمجھ سکتا ہے اور ان کے نتائج سے مستفید ہوسکتا ہے۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ ناظرین ان سے فائدہ اُٹھائیں گے اور اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم میں ان اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھیں گے کیوں کہ

خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج

تا ثّریا می رود دیوار کج

(اگر معمار، پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھتا ہے تو دیوار، آسمان کی وسعتوں تک ٹیڑھی ہی چلی جائے گی)

سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کون سے اُمور ہیں جو عالمِ طفلی کے ساتھ مختص ہیں، تاکہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں اُن کو ملحوظ رکھا جائے اور ان سے باحسن وجوہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے:

 اس ضمن میں پہلی بات جو ہرمطالعہ کرنے والے کو صاف دکھائی دیتی ہے، یہ ہے کہ بچوں میں ایک قسم کی اضطراری حرکت کا میلان ہوتا ہے، جو نہ صرف انسان کے ساتھ ہی خاص ہے بلکہ ہر حیوان میں پائی جاتی ہے۔ دیکھیے بلّی کا بچہ کیا مزے سے خودبخود کھیلتا ہے۔ چھوٹے کتّے کی زنجیر کھول دو تو اضطراری حرکت کی خوشی میں پھولے نہیں سماتا۔

….. انیسویں صدی کے مشہور حکما….. اس اضطراری جوش کو بچے کی نشوونما کے لیے بڑا ضروری جزو خیال کرتے ہیں، کیوں کہ اس حالت ِ اضطرار میں اُس کے اعضا حرکت میں آنے کے لیے کسی بیرونی محرک کے محتاج نہیں ہوتے۔ بچوں میں اعصابی قوت کی ایک زائد مقدار ہوتی ہے، جو کسی نہ کسی راہ سے صرف ہوکر اُن کی خوشی کا موجب ٹھیرتی ہے۔ اگرچہ بسااوقات ان کے ماں باپ کو اس سے تکلیف بھی اُٹھانی پڑتی ہے۔ بعض دفعہ اعصابی قوت کی یہ زائد مقدار رونے چلّانے میں صرف ہوجاتی ہے، بعض دفعہ بے تحاشا ہنسنے اور کھیلنے کود میں۔ پس، جو لوگ بچوں کے رونے سے تنگ آتے ہیں، اُن کو یاد رہے کہ یہ بھی اُن کے جسمانی اور روحانی نمو [ترقی یا بڑھوتری] کے لیے ایک ضروری جزو ہے۔ اس کے علاوہ اس قوت کے صرف ہونے کی اور بھی راہیں ہیں۔ مِن جملہ ان کے ایک یہ ہے کہ بچے کے حواس خود بخود حرکت میں آتے ہیں، جس کی وجہ سے اسے خارجی اشیا کا رفتہ رفتہ علم ہوتا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بچہ ایک متعلّم ہستی نہیں بلکہ سراپا ایک متحرک ہستی ہے، جس کی ہرطفلانہ حرکت سے کوئی نہ کوئی تعلیمی فائدہ اُٹھانا چاہیے، مثلاً اینٹوں کے گھر بنانا ، لڑی میں منکے پرونا، گانا وغیرہ۔ وہ زائد اعصابی قوت جو رونے اور بے جا شور کرنے میں صرف ہوتی ہے، ایک باقاعدہ شور یا راگ میں آسانی سے منتقل ہوسکتی ہے اور وہ قوت جو ضرر رساں اشیا کے چھونے اور دیگر چیزوں کو اِدھر اُدھر پھینکنے میں صرف ہوتی ہے، اینٹوں کے گھر بنانے میں سہولت سے صرف ہوسکتی ہے۔

– بچپن کا ایک اور خاصّہ یہ ہے کہ اس عمر میں کسی شے پر مسلسل توجہ نہیں ہوسکتی۔ جس طرح اُس کے جسمانی قوا کو ایک جگہ قرار نہیں ہوسکتا، اسی طرح اُس کے قواے عقلیہ بھی ایک نکتے پر عرصے کے لیے قرار پذیر نہیں رہ سکتے۔ جس طرح ہاتھ نچلے [آرام سے] نہیں رہ سکتے، اسی طرح اُس کی توجہ میں بھی ایک طرح کی بے قراری ہے، جو اُسے ایک مقام پر جمنے نہیں دیتی۔ لہٰذا، ہرطریقِ تعلیم میں اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ سبق طویل نہ ہوں اور چھوٹے چھوٹے حصوں پر منقسم ہوں، تاکہ پڑھتے وقت بچوں کے مختلف قوا کو تحریک ہو۔ اس کے علاوہ یہ بھی لازم ہے کہ ہرسبق میں ایک خاص مشترک بات ہو، تاکہ ایک خاص مقام پر توجہ لگانے کی عادت بھی ترقی کرتی جائے۔

– بچوں کو اشیا کے غور سے دیکھنے اور بالخصوص ان کے چھونے میں لطف آتا ہے۔ تین مہینے کی عمر کا بچہ ہو اور اُس کی توجہ روشنی کی طرف منتقل ہوجائے تو ہاتھ پھیلاتا ہے اور شمع کے شعلے کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ نظر کے فعل سے اُس کی تسلی نہیں ہوتی۔ حسِ لامسہ [چھونے کی حِس] سے بھی مدد طلب کرتا ہے، کیوں کہ اُسے قدرتاً اشیا خارجی کے چھونے میں مزا آتا ہے۔ یہ بات توہرشخص کے تجربے میں آئی ہوگی کہ جب بچے کی نظر دیوار کی کسی تصویر پر جاپڑے تو بے اختیار چلّانے لگتا ہے اور چاہتا ہے کہ تصویر اُتار کر اُس کے ہاتھوں میں دے دی جائے۔ چلّانے سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹے میاں اب چپ ہونے میں نہیں آئیں گے، مگر جب مطلوبہ شے سامنے رکھ دی جائے تو چپ ہو جانا، تو ایک طرف بعض اوقات آپ کی ہنسی بھی نکل جاتی ہے۔ پس، جس شے کے متعلق سبق دو، اس کو بچے کے سامنے رکھو اور جب سبق ختم ہوجائے تو شے مذکور اُس کے ہاتھ میں دے دو۔ مشاہدے سے حسِ بصر [دیکھنے کی صلاحیت] کی تربیت ہوتی ہے۔ چھونے سے قوتِ لمس معتدبہ فروغ پاتی ہے۔ گفتگو اور راگ وغیرہ سے قوتِ سامعہ۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی جون 2017

Loading