چوری کی عادت تو مجهے بچپن سے تهی.
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میرے دوستو جهگیوں میں رہنے والے اس بات کی فکر کہاں کرتے ہیں کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے بچے دن بهر کیا کرتے پهرتے ہیں .شائد کچهہ ہوں احساس کرنے والے ،لیکن میرے ماں باپ ایسے نہیں تهے .
ماں صبح سویرے بڑے لوگوں کے گهروں میں کام کاج کے لئے نکل جاتی اور ابا
ریڑهی پر بچوں کے کهلونے سجا کر بیچنے چل پڑتا .
جهگیوں کے اکثر بچوں کا یہی مشغلہ تها ، نظر بچا کر کبهی کسی دکان کے تهڑے سے ،کسی ٹهیلے سے ،کسی ریڑهی سے چهوٹی موٹی چیزیں چرا کر بهاگ جانا .ایسی چوری میں نہ پکڑے جانے کا ڈر تها ، نہ ماں باپ کی مار کا خطرہ۔
دن یونہی گزرتے رہے ،اور ہم سب جوان ہو گئے ،
اسی دوران ماں اللہ کو پیاری ہو گئی اور ابا بہت بوڑها ہو گیا تو ریڑهی میں نے سنبهال لی لیکن چوری کی پرانی عادت ساتهہ ساتهہ چلتی رہی .
میری جهگی سے کچهہ دور لاڈو کی جهگی تهی ،محبت تو مجهے اس سے شروع سے تهی ،ابا سے کہہ کر اس کے ماں باپ کی رضامندی سے اس سے شادی کر لی .
وہ میری چوری کی عادت سے واقف تهی اور شروع سے ہی مجهے کہتی رہی کہ میں یہ عادت چهوڑ دوں ،شاری کے بعد تو آئے دن لڑتی ،جهگڑتی ،روتی اور منت سماجت کرتی ،میں وعدہ کرتا اور توڑ دیتا،وہ ہمیشہ کہتی ،
“تو کسی دن بہت پچهتائے گا ،اللہ کی ناراضگی مول نہ لے .کسی کی بد دعا لگ گئی تو تیرا کچهہ نہیں بچے گا ،”
میں ہمیشہ ہنس کر ٹال دیتا ، “بهلا میں کوئی ڈاکے تهوڑی ڈالتا ہوں .
اس دن سڑک پر ایک جوتوں کی دکان کے سامنے ریڑهی لگائے کهڑا تها ،جب ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی دکان میں داخل ہوئے .لڑکی کی گود میں بمشکل دو تین ماہ کا بچہ تها ، شو کیس میں رکهے ہوئے ننهے ننهے بوٹوں کو دیکهہ کر خوش ہوتے رہے ،
پهر دکاندار سے ایک جوڑے کی قیمت پوچهی ،اس کے جواب پر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکها ،گویا قیمت ان کی حیثیت سے ذیادہ تهی ،لڑکے نے واپسی کے لئے کہا لیکن وہ نہ مانی ،اور بولی .
“آج میں ڈاکٹر کو نہیں دکهاتی ،فضول میں اتنی فیس لے لیتی ہے ، پهر کسی دن سہی ،لیکن یہ جوتے بک گئے تو مجهے ملال رہے گا .”
کافی بحث کے بعد لڑکے کو ہار ماننا پڑی اور وہ جوتے خرید کر خوش خوش باہر نکلے .
بس یہی بات میرے دماغ میں اٹک گئی ، جوتے واقعی بہت خوبصورت تهے اور میرا بچہ بهی چند دن بعد اس دنیا میں آنے والا تها ، تو کیوں نا ایک بار پهر سہی۔
یہی سوچ کر میں ان کے پیچهے ہولیا .
سڑک پر بے تحاشہ رش تها ، گاڑیوں کی لمبی قطاریں اور پیدل چلنے والوں کا ہجوم ،میری بهرپور مدد کر رہا تها .اسی رش کا فائدہ اٹها کر میں نے لڑکے کے ہاتهہ میں پکڑے ہوئے شاپنگ بیگ پر اپنا ہاتهہ مارا ،شاپر پر اس کی گرفت ذیادہ مضبوط نہیں تهی ،اور مجهہ جیسے منجهے ہوئے چور کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں تها .
ایسے موقعوں پر رش سے کیسے نکلتے ہیں اور خود کو کیسے بچاتے ہیں یہ صرف وہی جان سکتے ہیں ،جو اس کام میں ماہر ہوں .
ان دونوں کی کیا کیفیت اور حالت ہوئی ،مجهے اس سے کوئی سروکار نہیں تها .میں تو اتنے خوبصورت جوتے دیکهہ کر بے تحاشہ خوش ہو رہا تها اور تصور ہی تصور میں اپنے بچے کو پہنے ہوئے دیکهہ رہا تها .
پهر خوشیوں بهرا وہ دن بهی آگیا ،جب میں اپنی بیوی کو لے کر سرکاری ہسپتال گیا اور دو گهنٹے بعد نرس نے آکر بتایا۔
“تمہارے ہاں بیٹا ہوا ہے “s
خوشی سے پاگل ہو گیا ،دیوانہ وار وارڈ کی طرف بهاگا،میری بیوی بچے کو گود میں لئے بیٹهی تهی ،اس نے اس کے جسم پر لپٹا ہوا کپڑا ہٹایا ،اور اسے میری طرف بڑها دیا۔
اسے گود میں لینے کے لئےآگے بڑهے ہوئے میرے ہاتهہ وہیں رک گئے ،چکرا کر زمین پر گرنے سے پہلے میں نے بس اتنا دیکها۔
وہ دونوں پاوں سے معذور تها۔۔۔