Daily Roshni News

نظریہ دائرہ تکون

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )قران مجید میں ” سحر ” کا لفظ اپنے معنی و مفہوم کے ساتھ  تقریبا 63 مرتبہ آیا ہے، اردو میں اس کا ترجمہ” جادو ” کیا گیا ہے، جادو دو الفاظ ” جا ” اور “دو” سے ملکر بنا ہے ” جا ” کے معنی جگہ،  مقام،  وقوعہ یا چیز کے کئے جاتے ہیں اور ” دو” سے مراد دوسرا،  دوئی، تعداد،  ایک سے زیادہ  ہونا وغیرہ کے ہیں، جادو کا مطلب کسی ایک چیز کو دو رخوں پر کثرت سے دکھانا یا اس کا  نظر آنا، فریب نظر ہونا اور پریشان، شک پیدا ہونا ہے۔

 دماغ کے اندر شکوک و شبہات سے ذہن منتشر خیال ہوجاتا،ہے یہ منتشر خیالی نفسیاتی بیماریوں کا سبب بن جاتی ہے جس سے دماغی اور جسمانی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں،  زندگی کے باقی معمولات بھی متاثر ہو جاتے ہیں ان علامات کو ” جادو یا سحر ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

 روحانی نقطہ نظر سے جادو کی حقیقت کیا ہے اس کی وضاحت امام سلسلہ عظیمیہ، ابدال حق، حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ” لوح و قلم”  میں ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے

“علم نبوت کے زیر اثر جب کوئی خارقِ عادت نبی سے صادر ہوتی تھی اس کو معجزہ کہتے تھے اور جب کوئی خارقِ عادت ولی سے صادر ہوتی ہے تو اس کو کرامت کہتے ہیں لیکن یہ بھی علم نبوت کے زیر اثر ہوتی ہے۔ معجزہ اور کرامت کا تصرف مستقل ہوتا ہے۔ مستقل سے مراد یہ ہے کہ جب تک صاحب تصرف اس چیز کو خود نہ ہٹا دے وہ نہیں ہٹے گی۔ لیکن استدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے وہ مستقل نہیں ہوتا اور اس کا اثر فضا کے تاثرات بدلنے سے خود بہ خود ضائع ہو جاتا ہے۔ استدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے اس کو جادو کہتے ہیں۔”

قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ  مندرجہ بالا تحریر کی مزید وضاحت فرماتے ہیں

تصرف کی تین قسمیں ہیں

معجزہ

کرامت

استدراج

یہاں تینوں کا فرق سمجھنا ضروری ہے،  استدراج وہ علم ہے جو اعراف کی بری روحوں یا شیطان پرست جنات کے زیر سایہ کسی آدمی میں خاص وجوہ کی بنا پر پرورش پا جاتا ہے،

استدراج کے اصول محدود ترین مرکز میں کوئی ناخوشگوار اثر پیدا کر دیتے ہیں۔ اس ناخوشگوار اثر کی وجہ سے تجّلی  جو خیر کی حقیقت ہے بیزار ہو جاتی ہے اور بیزاری کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی تخریبی اثر مرتب ہو جاتا ہے۔ جب کوئی شخص محدود ترین مرکز کے خول میں کسی قسم کا تعفن یا کسی قسم کی کثافت پیدا کر لیتا ہے تو اس کی قوتیں تخریب اور شکست و ریخت پر قابو پا جاتی ہیں وہ صرف اس لئے کہ تجّلی نے بے رخی اختیار کر لی ہے اور اس کی بے رخی سے خیر کی تاثریات معطل ہو گئیں۔ محدود ترین مرکز کا خول انسانی جسم ہے۔

مثلاً سادھو اپنے محدود ترین مرکز کے خول یعنی جسم پر راکھ مل کر جلدی مسامات کو بالکل بند کر لیتے ہیں۔ چنانچہ ان کے جسم کی اندرونی روشنیاں جن کو زندگی کا قوام کہنا چاہئے، کثیف ہو کر رقیق بن جاتی ہیں۔ یہی تعفن کسی دوسرے جسم یا اجسام کے محدود ترین مرکزوں کی طرف بہنے لگتا ہے اور وہاں اپنی تاثیریں پیدا کر دیتا ہے جس سے وہ جسم یا اجسام تخریبی سرگرمیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ہر مذہب میں عبادت کے لئے غسل یا وضو کا اہتمام کیا جاتا ہے حالانکہ عبادت کا تعلق صرف ذہن سے ہے جسم سے نہیں۔ غسل اور وضو کا منشا طبیعت کو شگفتہ کر کے انہماک پیدا کرنا ہے۔

قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی اس تحریر میں تفکر کرنے سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ہر انسان میں اللہ تعالٰی کی تجّلی موجزن ہے جب کوئی شخص انبیاء و اولیاء کی طرز فکر کے تحت اس کا استعمال کرتا ہے تو معجزہ یا کرامت کہلاتی ہے اور جب کوئی شخص شیطانی اور سفلی خواہشات کے لئے اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے تو تجّلی کے اندر سے نور یا خیر کا عنصر  ختم ہو جاتا ہے اور تجّلی اپنی نورانیت سے بیزار ہوجاتی ہے جس کا مظاہرہ استدراج یا جادو کے زمرے میں آجاتا ہے۔

معجزے اور استدراج یا جادو کی وضاحت اور اسکے اندر فرق  کو سورہ اعراف میں فرعون کے دربار میں موسآ علیہ السلام اور جادوگروں کے درمیان مقابلے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے،

قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ()

فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ()

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ()

(فرعون) بولا اگر تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو لاؤ اگر سچے ہوتو (موسیٰ) نے اپنا عصا ڈال دیا وہ فوراً ایک ظاہر اژدھا ہوگیا

قومِ فرعون کے سرداربولے یہ تو ایک علم والا جادوگر ہے۔

موسآ علیہ السلام کا لاٹھی یا عصا پر تصرف وحی و الہام کے تحت معجزہ تھا جس میں حقیقت کا مکمل مشاہدہ شامل تھا،  جادوگروں کا رسیاں پھینک کر سانپ بنانا نظر کا دھوکہ  illusion تھا جو استدراج کے زمرے میں آتا ہے، جب موسآ علیہ السلام کے اژدھے نے تمام سانپوں کو نگل لیا تو  تمام جادوگر مسلمان ہوگئے۔ یہاں سے علم نبوت اور علم استدراج یا جادو کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔

 جس طرح روحانی سالک اللہ تعالٰی کے اسماء اور قرآنی آیات کے ورد و وظائف اور چلہ کشی سے اپنے اندر نورانی روشنیوں کا ذخیرہ کرکے اپنی روحانی صلاحیتوں میں اضافہ کرکے آللہ تعالٰی کی صفات کا عرفان حاصل کرتا ہے اسی طرح ایک شیطانی طرز فکر کا حامل سفلی الفاظ کی تکرار کرکے شیطانی علوم میں مہارت پیدا کرتے ہیں، استدراجی یا  شیطانی علوم میں مادی مفادات اور نفسانی خواہشات کا حصول ہوتا ہے جس کی وجہ سے جسم مثالی میں کثافت ، تعفن اور گندگی  پیدا ہوجاتی ہے جو لوگوں اور ماحول میں تکلیفوں اور  ناگہانی بیماریوں کا سبب بن جاتی ہے، ہمزاد،  آسیب اور بدروحوں کا استدراج کے حامل لوگوں سے وابستہ ہونا نوع انسانی کے لئے پریشانیوں اورتکلیفوں میں مبتلا کر دیتا ہے، استدراج یا جادو کا اثر وقتی طور پر ہوتا ہے جو  ماحول اور جگہ تبدیل کرنے پر عموما ختم ہو جاتا ہے کسی بھی قسم کا جادو ہو  اس کو قرآنی آیات اور اللہ تعالٰی کے اسماء کی مدد سے ختم کیا جاسکتا ہے۔

جادو کی  مشہور قسم  “کالا  جادو”  black magic  ہے جس میں انسانی حواس شکوک و شبہات  allusion, illusion confusion کا بری طرح شکار ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ ذہنی جسمانی ، نفسیاتی بیماریوں کی وجہ سے ذہن کام نہیں کرتا ہے کچھ سجھائی نہیں دیتا، مالی، کاروباری معاشرتی، ازدواجی اور خاندانی مسائل اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ زندگی اجیرن ہوجاتی ہے یہ سب سفلی علوم کے ماہر اپنی عملیات کی کثیف طاقت کو کسی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے کرتے ہیں چونکہ استدراجی عملیات فطرت کے اندر بگاڑ کی ایک شکل ہے جو عبادات کرنے اور مسلسل باوضو رہنے سے وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتا ہے, سیاہ، کالا،  تاریکی،  اندھیرا کا متضاد،  سفید،  روشنی،  اجالا،  نور ہے۔ جس طرح جادو کے الفاظ حواس کے اندر تاریکی پیدا کرتے ہیں بلکل اسی طرح نورانی علوم کے  الفاظ کے کی تکرار حواس کے اندر سے تمام  تعفن اور گندگی صاف اور مجلا کرکے روشنی پیدا کر دیتے ہیں،  جس سے خوشی، آرام و سکون اور  اطمنان قلب حاصل ہوتا ہے اور خوف و غم سے آزادی مل جاتی ہے، چونکہ اللہ تعالٰی کی ذات زمین واسمان کا نور ہیں اس لئے اللہ تعالٰی کی ذات و صفات اور عبادات کی تکرار ہر قسم کے جادوئی اثرات ختم کر دیتی ہیں۔ نظریہ دائرہ و تکون کی مشقیں استدراجی یا جادوئی اثرات ختم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں، پوسٹ کی طوالت سے بچنے کے لئے نظر بد اور حسد کو اگلی قسط میں بیان کیا جائے گا۔

Loading