Daily Roshni News

آنے والی نسلوں کو ہم کیسی دنیا دیں گے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔ابن وصی۔۔۔قسط نمبر2

 آنے والی نسلوں کو ہم کیسی دنیا دیں گے؟

تحریر۔۔۔ابن وصی

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ آنے والی نسلوں کو ہم کیسی دنیا دیں گے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔ابن وصی )سکے گا۔ اسی طرح حیوانات میں اگر صرف شہد کی مکھی کی مثال لیں تو وہ بھی ماحول میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، یوں تو شہد کی مکھیاں جنگلوں اور باغات میں ایک پھول سے دوسرے پھول رس چوس کر شہد اکھٹا کرتی ہیں لیکن اس دوران وہ پھولوں کے ختم (پولن) کو منتقل کرنے کا کام بھی سر انجام دیتی ہیں، جو پھولوں پودوں کی افزائش کے لیے ضروری ہے۔ اس طرح شہد کی مکھیاں دنیا بھر میں قریب 70 فیصد فصلوں کی پولینیشن یا تخم کاری میں مدد کرتی ہیں۔ اگر دنیا سے شہد کی مکھیاں ناپید ہو جائیں تو انسان 70 فیصد زراعت سے محروم ہو سکتا ہے۔ ایکو سسٹم میں ہماری بے جا مداخلت اس زمین کو ہماری آنیوالی نسلوں کے لئے ناقابل رہائش بنا سکتی ہے۔ چنانچہ دنیا کے ہر ہوش مند انسان کو یہ سوچنا ہو گا کہ اس کی معمولی سی ماحول دشمن سرگرمیوں کے تباہ کن نتائج اور اثرات قدرتی آفات، غذائی قلت اور مہلک امراض کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ ہماری آنے والی آئندہ نسل کو ملنے والی دنیا کیسی ہو گی۔

ڈوبے شہر:گلوبل وارمنگ سے متعلق نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر زمینی درجہ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی بڑھا تو گلیشئر پگھلنے سے سطح سمندر میں 4.7 میٹر کا اضافہ ہو جائے گا اور کئی ساحلی شہر زیر آب آجائیں گے۔ اس سے 28 کروڑ افراد متاثر ہوں گے، اگر درجہ حرارت 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھے تو اس کے اثرات بھی دو گنا ہو جائیں اور یوں 60 کروڑ افراد کے بے گھر ہونے کا خدشہ ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اگر صورت حال میں بہتری نہ آئی تو 2100 تک سمندروں کی سطح میں 52 سے 98 فیصد تک اضافہ ہو جائے گا اس عمل کے نتیجے میں ساحلی شہروں، جزیروں پر موجود آبادیوں اور نشیبی ڈیلٹاؤں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ دنیا بھر کے ساحلی شہروں کی آبادی 60 کروڑ سے زائد ہے۔ خدشہ ہے کہ سمندر کنارے آباد بیشتر شہر جن میں ژیامن، زان یانگ، تیانجنگ شین ژین، گوانگ ژھو (چین)، تلویم (جاپان) ، ہوچی منہ ، گوایا کل ( ایکواڈر) ، آبید جان (آئیوری کوسٹ)، بنکاک، جکار تا، بوسٹن، سورٹھ ، چنائی، کلکتہ، ممبئی، ٹامپا، نیو آرلینز، نیویارک، نیوجرسی، میامی سڈنی، شنگھائی اور کراچی شامل ہے،

درجہ حرارت بڑھنے سے بری طرح متاثر ہوں گے۔ دریا غائب دنیا بھر میں موجود بیشتر دریا اپنا پانی گلیشئر سے حاصل کرتے ہیں، لیکن غیر معمولی حدت کے باعث گلیشئر انتہائی تیز رفتاری سے چھل رہے ہیں ۔ اس عمل سے کئی دریاؤں کے ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ کینیڈا میں ایک حیرت انگیز واقعہ سامنے آیا ہے۔ دریائے یوکون جو کینیڈا کے بڑے برفانی گلیشئر ز سے حاصل ہونے والی پانی پر مشتمل تھا، محض چند ماہ کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں سرے سے اس گلیشیر کی تہ کافی کم ہو گئی اورشمال کی جانب پانی کے بہاؤ میں کمی آگئی اور یوں دریا کو پانی مانا بند ہو گیا۔ یہ موجودہ عہد کا پہلا واقعہ ہے جب کسی دریا کے اچانک غائب ہونے کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

 مزاج بھی بدل جائیں گے:

 موسمیاتی تبدیلی ہمارے مزاجوں پر بھی بری طرح اثر انداز ہو سکتی ہے۔ محققین کے مطابق عالمی حدت میں اضافے کے باعث انسان زیادہ غصیلے ہو جائیں گے اور تشدد میں بھی اضافہ ہو گا۔ ماہرین کے مطابق موسم گرما میں پر تشدد جرائم کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

امراض میں اضافہ:

موسمیاتی تبدیلی ہماری صحت پر بھی بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ محققین کے مطابق عالمی حدت میں اضافے کے باعث چھروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوگا جو موذی امراض کو پھیلانے کا باعث بنیں گے۔ عالمی حدت میں اضافہ پولین پھیلانے کا سبب بنے گا۔ ایک تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ زیادہ گرم موسم ذیا بیلس میں بھی اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں عالمی حدت میں ایک ڈگری اضافے پر ذیابیطس کے مریضوں میں ایک لاکھ افراد کا اضافہ نوٹ کیا گیا۔

سبزہ نہیں تو صحت نہیں:

دماغی اور جسمانی صحت کی بہتری میں سرسبز ماحول کا اہم کردار ہوتا ہے، 2013ء میں یونیورسٹی آف ایسکس کی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ دباؤ میں مبتلا ایسے افراد جو قدرتی مقامات پر چہل قدمی کرتے ہیں، ان کے ذہنی دباؤ میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی تحقیق میں یہ بتایا گیا کہ جارحانہ رویے کے حامل نوجوان اگر 6 ماہ تک سر سبز مقامات کے درمیان چہل قدمی کریں ، تو ان کے اس رویے میں نمایاں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔

غذائی قلت:

موسمی تغیرات کا بڑا شکار زراعت ہوتی ہے اور گندم سے لے کر کپاس اور سبزیوں تک کی فصلیں اس سے متاثر ہوتی ہیں ۔ بے موسمی بارش نا صرف چاول کی فصل پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے بلکہ کپاس کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہو گا۔

 سانس لینا مشکل

آپ شاید اس بات سے آگاہ ہیں کہ بیجنگ سمیت چین کے کئی شہر میں فضائی آلودگی حد درجہ بڑھ گئی ہے، دہلی سے لاہور کے گرد و نواح تک بھی سموگ بڑھ رہی ہے۔ یہ آلودگی صنعتی ایندھن، بجلی گھروں اور شدید ٹریفک سے پیدا ہورہی ہے ، ماحولیات کے ماہرین نے خبردار کیا ہے دھند اور آلودگی کی وجہ سے لوگوں کے پھیپڑے متاثر ہوں گے، سانس اور گلے کی بیماریوں میں اضافے کا خطرہ ہے ۔ بے شمار لوگ دمہ اور عارضہ قلب میں بھی۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2017

Loading