آنے والی نسلوں کو ہم کیسی دنیا دیں گے؟
تحریر۔۔۔ابن وصی
قسط نمبر3
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ آنے والی نسلوں کو ہم کیسی دنیا دیں گے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔ابن وصی )مبتلا ہو سکتے ہیں۔
وبائی امراض:موسمی حدت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ چھوٹےخون چوسنے والے حشرات مثلا چھر، کھٹل، جوئیں، چیچڑی، لیک و غیرہ کی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔ یہ حشرات خون کے ذریعے منتقل ہونے والے اور دیگر وبائی امراض کا سبب بنتے ہیں۔ عالمی حدت میں اضافہ مستقبل میں تیزی سے وہائی امراض کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔
مزید ڈائریا:دنیا بھر میں لاکھوں لوگ ڈائریا میں مبتلا ہو رہے ہیں اور یہ بیماری بچوں کے لئے شدید کمزوری یا موت کا باعث بن سکتی ہے۔ آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے آلودہ پانی کی فراہمی اسہال کے امراض میں اضافہ کا باعث بنے گی۔ عالمی حدت میں ایک ڈگری کا اضافہ اسہال پیدا کرنے والے جراثیم ای کولی .E coli کی افزائش میں 8 فیصد اضافہ کر سکتا ہے۔ گردوں میں پتھری کا سبب گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گردوں میں پتھری بننے کے واقعات بھی بڑھ جائیں گے۔ ماہرین کا کہنا گرم موسم میں جسم سے پسینے کا اخراج بڑھ جاتا ہے اور یہ عمل جسم میں پانی کی کمی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیشاب میں کیلشیم اور دیگر دھاتوں کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ اس سے گردوں میں پتھری بننے لگتی ہے۔
بائیو ڈائیورسٹی ماحولیاتی تبدیلیاں جانوروں کی کئی اقسام کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ مثلاً برفانی ریچھ، بھیڑئیے ، اور برف میں زندگی گزارنے والے کئی جانوروں کی بقا کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ عالمی حدت میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا، جانوروں کے قد بھی چھوٹے ہوتے جائیں گے دراصل گرمی میں اضافے کے باعث گھاس اور دیگر چھوٹے پودوں میں پروٹین کی مقدار کم ہوتی جائے گی، جن کو کھانے والے جانور مثلا بیل ، گائے، وغیرہ کی غذائیت میں کمی پیدا ہونے لگے گی۔ مستقل میں بیل اپنے ایوریج وزن سے سے کئی گنا کم ہو جائیں گے۔
خانہ جنگی میں اضافہ: در جہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں پانی اور خوراک جیسی چیزوں کی کمی کی وجہ سے ، غیر مستحکم اور ترقی پزید قوموں میں مزید عدم استحکام آئے گا۔ تحقیق کے مطابق اس میں مزید خانہ جنگی، زیادہ تشدد، اور قتل وغارت گری جیسے واقات میں اضافہ ہو گا۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ ترقی یافتہ ممالک محفوظ رہیں گے ہیں، تو ایسا نہیں ہے، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہیٹ اسٹرلیں اور پر تشدد مزاج میں اضافہ کافی مقدار کی دماغی صحت کو نقصان پہنچائے گا۔ فضائی سفر میں خطرات ایک تازہ تھا زہ تحقیق کے مطابق مستقبل قریب میں ہوائی جہاز میں سفر کرنا پہلے سے زیادہ پریشان کن ہو جائے گا۔ تحقیق کے مطابق دوران پرواز ہوائی جہازوں کو ماضی کے مقابلے میں ڈیڑھ سو فیصد زیادہ ایئر ٹربو لینس” کا سامنا کرنا پڑے گا یعنی شدید ہچکولے لگا کریں گے۔
آسمانی بجلی گرنے میں اضافہ عالمی حدت میں اضافے کے باعث طوفان باد ومیں زندگی گزارنے والے کئی جانوروں کی بقا کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ عالمی حدت میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا، جانوروں کے قد بھی چھوٹے ہوتے جائیں گے دراصل گرمی میں اضافے کے باعث گھاس اور دیگر چھوٹے پودوں میں پروٹین کی مقدار کم ہوتی جائے گی، جن کو کھانے والے جانور مثلا بیل ، گائے، وغیرہ کی غذائیت میں کمی پیدا ہونے لگے گی۔ مستقل میں بیل اپنے ایوریج وزن سے سے کئی گنا کم ہو جائیں گے۔
خانہ جنگی میں اضافہ در چه حرارت میں اضافے کے نتیجے میں پانی اور خوراک جیسی چیزوں کی کمی کی وجہ سے ، غیر مستحکم اور ترقی پزید قوموں میں مزید عدم استحکام آئے گا۔ تحقیق کے مطابق اس میں مزید خانہ جنگی، زیادہ تشدد، اور قتل وغارت گری جیسے واقات میں اضافہ ہو گا۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ ترقی یافتہ ممالک محفوظ رہیں گے ہیں، تو ایسا نہیں ہے، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہیٹ اسٹرلیں اور پر تشدد مزاج میں اضافہ کافی مقدار کی دماغی صحت کو نقصان پہنچائے گا۔ فضائی سفر میں خطرات ایک تازہ تھا زہ تحقیق کے مطابق مستقبل قریب میں ہوائی جہاز میں سفر کرنا پہلے سے زیادہ پریشان کن ہو جائے گا۔ تحقیق کے مطابق دوران پرواز ہوائی جہازوں کو ماضی کے مقابلے میں ڈیڑھ سو فیصد زیادہ ایئر ٹربو لینس” کا سامنا کرنا پڑے گا یعنی شدید ہچکولے لگا کریں گے۔
آسمانی بجلی گرنے میں اضافہ عالمی حدت میں اضافے کے باعث طوفان باد و باراں اور آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو گا۔ آسمانی بجلی گرنے سے جنگلات میں آگ لگنے کے علاوہ بھی کئی نقصانات ہیں۔
لاوا اگلتے آتش فشاں عالمی حدت کے باعث گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔
زمین پر ہوا کا دباؤ بھی کم ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں آتش فشانوں میں لاوا بڑھتا جا رہا ہے۔ اگلے برسوں کے دوران دنیا بھر میں آتش فشاں زیادہ لا وانگلیس گے۔ سائبیریا آگ اگلے گا۔سائبیریا کا شمار دنیا کے سرد ترین مقامات میں ہوتا ہے ماہرین نے سائبیریا کی برف میں ڈھکی زمین میں پوشیدہ گیس کے بڑے بڑے بلبلوں کا انکشاف کیا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر بڑی تباہی کو جنم دے سکتے ہیں۔
چیونٹیوں کی بدلتی عادات آپ شاید یقین نہ کریں لیکن کرہ ارض کے ایکو سسٹم میں چیونٹیاں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حدت اس ننھی مخلوق کے مزاج پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔
شہد کی مکھیاں اور بادام جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ شہد کی مکھیاں شہد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پھولوں کے تخم کاری کا کام بھی سرانجام دیتی ہیں ، جو پھولوں پودوں کی افزائش کے لیے ضروری ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں، کیڑے مار ادویات کے استعمال اور چھوٹے خون چوسنے والے کیڑوں (مائٹس) میں اضافے کی وجہ سے دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی تعداد میں بہت تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے، جس کا اثر پودوں کی افزائش پر پڑ رہا ہے۔ شہد کی مکھیاں نہ رہی تو بادام بھی نہیں ہوں گے۔ امریکہ میں دور دراز ریاستوں سے اربوں شہد کی مکھیاں کیلیفورنیا میں باداموں کے باغات میں پہنچائی جاتی ہیں تاکہ فصل کو کامیاب بنایا جاسکے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اسی طرح جاری رہی تو شاید ہماری آنے والی نسل بادام کے ڈالنے سےمحروم ہو جائے گی۔
جنگل نہیں تو مچھلیاں نہیں آپ سوچیں گے جنگل سے مچھلیوں کا کیا ناطہ، دراصل مچھلیوں میں کاربن پر مشتمل بائیو ماس کا تقریباً 70 فیصد در محنتوں اور پانوں سے آتا ہے، نہ کہ زیر آب خوراک کے ذرائع سے۔ جنگلات کاٹے جانے سے دریاؤں اور جھیلوں میں گرنے والے پتوں کی تعداد میں کمی آئے گی جس کے نتیجے میں مچھلیوں کو کم خوراک میسر ہو گی۔ یوں چھوٹی مچھلیوں کا حجم متاثر ہو گا اور مچھلیوں کی عمر میں بھی کمی واقع ہوگی۔ انسانوں کی جانب سے سمندر میں پھینکا جانے والا کچرا بھی سمندری حیات کے لیے نقصان دہ ہے۔ گلوبل وارمنگ کسی ایک خطے کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ اس لئے دنیا کے تمام ممالک مشترکہ اقدامات کے ذریعے ہی فضائی مسئلے کی بنیادی وجوہ ختم کرنے میں زیادہ مئوثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ خطے کے ممالک کیلئے ضروری ہے کہ وہ گلوبل وارمنگ کو اپنی ترجیحات میں سر فہرست رکھیں کیونکہ گلوبل وارمنگ میں کمی سے ہی ہماری آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے گا۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2017