“جب آواز، روشنی، یا ہجوم سے دماغ بوجھل ہو جائے”
سینسوری اوورلوڈ (Sensory Overload) کیا ہوتا ہے؟
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سینسوری اوورلوڈ (Sensory Overload) ایک ایسی نفسیاتی کیفیت ہے جس میں انسان کے حواس، جیسے دیکھنا، سننا، سونگھنا یا چھونا، معمول سے زیادہ متحرک ہو جاتے ہیں، اور دماغ ایک ہی وقت میں بہت زیادہ معلومات وصول کرنے لگتا ہے۔ یہ معلومات جب حد سے زیادہ ہو جائیں، تو دماغ انہیں سنبھال نہیں پاتا اور انسان پریشان، چڑچڑا یا بے چین محسوس کرنے لگتا ہے۔ عام طور پر لوگ اسے “چڑچڑا پن” یا “زیادہ حساس ہونا” سمجھتے ہیں، مگر درحقیقت یہ کیفیت مختلف ذہنی یا نیورولوجیکل حالتوں سے جُڑی ہو سکتی ہے، جیسے کہ Anxiety، Autism Spectrum Disorder، یا ADHD۔
یہ کیفیت کیوں پیدا ہوتی ہے؟
جب انسان کسی پرہجوم، شور شرابے والے، یا تیز روشنیوں والے ماحول میں ہوتا ہے، تو اس کے دماغ کو ایک ساتھ بہت سی معلومات پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ نیوروٹائپیکل افراد یعنی وہ جن کا دماغ عمومی طور پر کام کرتا ہے، اس معلومات کو خودکار طریقے سے فلٹر کر لیتے ہیں۔ لیکن نیورو ڈائیورجینٹ افراد، یا وہ لوگ جو اضطراب (anxiety) کا شکار ہوں، ان کے دماغ میں یہ فلٹرنگ سسٹم مؤثر نہیں ہوتا۔ نتیجتاً آواز، روشنی، حرکت یا چھوٹے چھوٹے محرکات بھی دماغ پر بھاری بوجھ بن جاتے ہیں۔ یہ بوجھ اتنا شدید ہو سکتا ہے کہ فرد فوری طور پر بے سکونی، ذہنی الجھن، یا حتیٰ کہ جسمانی تکلیف تک محسوس کرنے لگتا ہے۔
سینسوری اوورلوڈ (Sensory Overload) کی علامات کیا ہو سکتی ہیں؟
اس کیفیت میں فرد مختلف جسمانی اور جذباتی ردعمل کا سامنا کرتا ہے، جیسے اچانک گھبراہٹ محسوس ہونا، شور سے بچنے کی خواہش، آنکھوں کو بند کرنا یا روشنی سے تکلیف ہونا، آوازوں پر شدید ردعمل دینا، یا ہجوم سے دور بھاگنا۔ بعض افراد کپڑوں کے کپڑے، خوشبوؤں یا کسی سطح کے چھونے سے بھی بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ ان سب علامات کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انسان “نخرے” کر رہا ہے یا “زیادہ حساس” ہے، بلکہ یہ ایک سچ مچ کی نیورولوجیکل کیفیت ہے جسے سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
انسائٹی Neurodivergence) ، (Anxiety)) اور (Sensory Overload) کا تعلق:
سینسوری اوورلوڈ (Sensory Overload) کا سب سے گہرا تعلق نیورولوجیکل فرق یعنی Neurodivergence سے ہوتا ہے۔ Autism اور ADHD والے افراد میں یہ کیفیت زیادہ عام ہوتی ہے کیونکہ ان کے دماغ دنیا کو تھوڑا مختلف انداز میں پروسیس کرتے ہیں۔ ان کے لیے روزمرہ کی معمولی چیزیں جیسے پنکھے کی آواز، موبائل کی وائبریشن، یا کسی کپڑے کی ساخت، بہت زیادہ بوجھ کا باعث بن سکتی ہیں۔ اسی طرح، وہ لوگ جو Generalized Anxiety Disorder یا Panic Disorder کا شکار ہوتے ہیں، ان کے دماغ پہلے ہی تناؤ کی حالت میں ہوتے ہیں، اور معمولی محرکات بھی Overload کا سبب بن سکتے ہیں۔
دماغ میں کیا ہوتا ہے جب Sensory Overload ہوتا ہے؟
دماغ کا وہ حصہ جو حسی معلومات پر عمل کرتا ہے، اسے Thalamus کہتے ہیں۔ جب بہت زیادہ محرکات ایک ساتھ آتے ہیں، تو تھالمس اور دماغ کے دیگر حصے، جیسے Amygdala (خطرے کا مرکز)، زیادہ متحرک ہو جاتے ہیں۔ اس سے دماغ تناؤ کی حالت میں آ جاتا ہے اور انسان خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے، چاہے خطرہ اصل میں موجود نہ ہو۔ Anxiety کے شکار افراد میں یہ ردعمل زیادہ شدت سے ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ ان کا دماغ پہلے ہی الرٹ حالت میں ہوتا ہے، اور Sensory input اس کیفیت کو اور بڑھا دیتا ہے۔
اس کیفیت سے نمٹنے کے طریقے کیا ہو سکتے ہیں؟
Sensory Overload کو سنبھالنے کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ فرد اپنے محرکات کو پہچانے۔ کون سے ماحول، آوازیں یا روشنیاں اسے متاثر کرتی ہیں؟ ان کے علم سے وہ بہتر تیاری کر سکتا ہے۔ شور والے ماحول سے وقتی طور پر نکل جانا، آنکھوں پر چشمہ لگانا، شور کو کم کرنے والے ہیڈ فون استعمال کرنا، یا سانس لینے کی مشقیں کرنا مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ بعض افراد کے لیے وزن والے کمبل (weighted blankets) یا مخصوص ساخت کے کپڑے سکون دہ ہوتے ہیں۔ اگر یہ کیفیت بار بار ہو رہی ہو، تو کسی ماہرِ نفسیات یا occupational therapist سے رہنمائی لینا بہترین قدم ہے۔
یہ چڑچڑا پن نہیں، ایک نیورولوجیکل حقیقت ہے:
Sensory Overload کوئی عارضی موڈ یا بہانہ نہیں بلکہ ایک حقیقی نیورولوجیکل کیفیت ہے، جو فرد کے دماغ کی مخصوص ساخت اور اس کے ماحول سے تعامل کی بنیاد پر جنم لیتی ہے۔ یہ کیفیت عام لوگوں کو غیر اہم لگ سکتی ہے، مگر متاثرہ فرد کے لیے یہ ایک مکمل ذہنی، جذباتی اور جسمانی جدوجہد ہوتی ہے۔ اگر معاشرہ اس کیفیت کو سمجھے، اس پر ہمدردی رکھے اور مناسب سپورٹ فراہم کرے، تو نیوروڈائیورجینٹ یا anxious افراد کے لیے زندگی کافی حد تک آسان بن سکتی ہے۔
ماہر نفسیات حفصہ