Daily Roshni News

گل ناآشنا ہی رہی۔۔۔ ازقلم۔۔۔ خنساء محمد جاوید

گل ناآشنا ہی رہی

ازقلم۔۔۔ خنساء محمد جاوید

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ گل ناآشنا ہی رہی۔۔۔ ازقلم۔۔۔ خنساء محمد جاوید)امّی! مجھے کالج کے لیے دیر ہورہی ہے، جلدی سےناشتا لگادیں۔‘‘ ڈائننگ روم سے بیٹی کی بلند آواز آئی، تو پسینے میں بھیگا ہوا وجود عجلت میں روٹیاں سینکنے لگا۔ دوسری طرف چائے کا پانی اُبل کر چولھے سے باہر گر رہا تھا۔ ’’مما! جلدی سے لنچ باکس دے دیں، ورنہ اسکول بس نکل جائے گی۔‘‘ چھے سالہ ننّھے روحان کی آواز سن کر اُس کے ہاتھ مزید تیزی سے چلنے لگے۔ ’’ابھی لائی بیٹا، بس دو منٹ صبر رکھو۔‘‘ وہ جلدی سے چائے تھرماس میں انڈیلتے ہوئے بولی۔

تھوڑی سی چائے ہاتھ پر بھی گرگئی، مگر پروا کس کو تھی؟’’ارے فوزیہ! میری گھڑی نہیں مل رہی، ذرا آکر دیکھ دو ناں۔‘‘ کمرے سے شوہر کی آواز آئی تو وہ ہاتھ کی پشت سے پسینہ صاف کرتے ہوئے بولی۔ ’’نعمان! ڈریسنگ ٹیبل کے بائیں طرف والی دراز میں دیکھیں، مَیں نے وہیں رکھی تھی۔‘‘’’اچھا، ٹھیک ہے۔‘‘وہ جھنجھلاتے ہوئے بولے اور واپس مُڑ گئے۔ ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ عُمر کچن میں آ دھمکا۔ ’’امّی! میری شرٹ کا بٹن ٹوٹ گیا ہے۔‘‘ ’’اوہ بیٹا! ثناء سے کہہ دو۔‘‘ وہ انڈا پلیٹ میں نکالتے ہوئے بولی۔

عُمر منہ بسورنے لگا۔ ’’امّی! وہ کہہ رہی ہے کہ مَیں تمہاری نوکر نہیں ہوں۔‘‘ ’’اچھا دکھاؤ۔‘‘ فرائنگ پین چولھے پر رکھتے ہی اُس نے سوئی، دھاگا لیا اور بٹن ٹانکنے لگی۔ سوئی کی نوک انگلی میں چُبھ گئی۔ ’’آہ…!‘‘ ’’امّی! آپ کی انگلی میں لگ گئی ہے… رہنے دیں، شرٹ پرداغ لگ جائے گا۔‘‘ عُمر نے پریشانی سے کہا۔ ’’نہیں بیٹا! بس ہوگیا۔‘‘ ’’چھوڑیں امّی! مَیں دوسری شرٹ پہن لیتا ہوں۔‘‘ وہ ماں کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے چلا گیا اور وہ اُس کی پشت کو ایک نظر دیکھ کر پھر چولھے کی طرف پلٹی۔

’’فوزیہ! امّی کو دوا دے دی ہے؟‘‘ نعمان صاحب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے بولے۔’’بس ابھی دینے جا ہی رہی تھی…‘‘وہ ناشتا لگاتے ہوئے بولی۔ ’’ابھی دینےجا رہی تھی؟ فوزیہ! ڈاکٹر نے کہا ہے کہ وقت پر دوا دینا ضروری ہے، اور ایک تم ہو…!‘‘ وہ غصّے سے چنگھاڑتے ہوئے کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

وہ ہڑبڑا کر بولی۔’’نعمان! ناشتا تو کرلیں، مَیں ابھی دوا دے دیتی ہوں۔‘‘ ’’چھوڑو یہ نیک بہو بننے کا ناٹک! مَیں سب جانتا ہوں، میری ماں تمہارے لیے بوجھ ہے۔‘‘ ’’نعمان! آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟‘‘ وہ ساکت نظروں سے اُنھیں دیکھنے لگی۔ اُس نے ہمیشہ اپنی ساس کی خدمت ماں سمجھ کر کی تھی، اور آج اُس کا شوہر ہی اُس کی نیت پر شک کر رہا تھا۔

اُس کی سوچ ثناء کی آواز نے توڑی۔ ’’مما! بابا، دادی کو دوا کھلانے چلے گئے ہیں، آپ مجھے ناشتا دے دیں، یا مَیں بھی بھوکی ہی چلی جاؤں۔‘‘ وہ چونک کر بیٹی کی طرف متوجّہ ہوئی اور جلدی سے اُس کے لیے ناشتا لے کر آئی۔ ’’مما! یہ کیا ہے؟ وہی ہر روز والا انڈا، پراٹھا۔ مما! آپ کو پتا ہے، میری سب فرینڈز ہیلتھی ڈائٹ لیتی ہیں اور مَیں…؟‘‘ ثناء بدتمیزی سے کہتی ہوئی میز سے اُٹھی اور زور سے دروازہ بند کرتی ہوئی کالج کے لیے روانہ ہوگئی۔ ننّھا روحان بھی گھر کی فضا دیکھ کر خاموشی سے بغیر کچھ کھائے اسکول کے لیے روانہ ہو گیا۔ اور وہ…؟

وہ آئینے کےسامنے کھڑی، اپنا عکس دیکھ رہی تھی… بکھرے بال، اُلجھی سانسیں، پسینہ زدہ چہرہ… ایک عورت جو شوہر، بچّوں اورگھر بارکے لیے اپنا آپ کھپا چُکی تھی، مگر سب کے لیے ’’گُلِ ناآشنا‘‘ ہی رہی۔ ایسا گُل، جو کِھل کر بھی پہچانا نہ گیا، چہار سُو محبّتیں بانٹ کربھی محبّت کا مستحق نہ ٹھہرا۔

ازقلم:: خنساء محمد جاوید🖋

Loading