۔۔۔یادگار غزل۔۔۔
شاعر۔۔۔احمد فراز
عرض غم کبھی اس کے روبرو بھی ہو جائے
شاعری تو ہوتی ہے گفتگو بھی ہو جائے
زخم ہجر بھرنے سے یاد تو نہیں جاتی
کچھ نشاں تو رہتے ہیں دل رفو بھی ہو جائے
رند ہیں بھرے بیٹھے اور مے کدہ خالی
کیا بنے جو ایسے میں ایک ہو بھی ہو جائے
میں ادھر تن تنہا اور ادھر زمانہ ہے
وائے گر زمانے کے ساتھ تو بھی ہو جائے
پہلی نامرادی کا دکھ کہاں بسرتا ہے
بعد میں اگر کوئی سرخ رو بھی ہو جائے
دین و دل تو دے بیٹھے اب فرازؔ کیا غم ہے
کوئے یار میں غارت آبرو بھی ہو جائے