Daily Roshni News

انٹرنیٹ سے برین نیٹ تک!۔۔۔ تحریر۔۔۔ارشاد بھٹی۔۔قسط نمبر1

انٹرنیٹ سے برین نیٹ تک!

تحریر۔۔۔ارشاد بھٹی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ انٹرنیٹ سے برین نیٹ تک!۔۔۔ تحریر۔۔۔ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ انٹرنیٹ سے برین نیٹ تک!۔۔۔ تحریر۔۔۔ارشاد بھٹی)کالے سوٹ پر سرخ ٹائی لگائے لمبے سفید بالوں والا پروفیسر میچیوکا کو بول رہا تھا اور لوگوں سے کھچا کھچ بھرے دبئی کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے مین ہال میں ایسا  سناٹاتھا کہ سانس لینے کی آواز تک سنائی نہیں دے رہی تھی ، دنیائے فزکس کا یہ ماہر جس کی 90 فیصد سائنسی پیش گوئیاں سچ ثابت ہو چکیں، آج آنے والی دنیا کی ایسی جھلک دکھا رہا تھا کہ 100 ممالک کے 2 ہزار بزنس ٹائیکونز مبہوت دم سادھے اس Physics Futurist” کو سن رہے تھے اور بھلا کسی کے سانس لینے کی آواز سنائی بھی کیسے دیتی کہ جب درجن بھر کتابوں کا یہ مصنف بتا چکا ہو کہ برین نیٹ ، انٹرنیٹ کی جگہ لینےوالا ہے۔

کمپیوٹرز غائب ہو جائیں گے اور دنیا میں صرف Chip رہ جائیں گی اور وہ بھی اتنی سستی Chips کہ 2020ء تک ایک Chip کی قیمت ایک Penny ہو گی، جو یہ سنا چکا ہو کہ سر میں دماغ کے قریب Chip لگنے سے ہر شخص ہر لمحہ سیٹلائٹ سے آن لائن رابطے میں ہو گا، عینکوں میں کیمروں کا لگنا تو پرانی بات ہو چکی اب تو ٹینک میں انٹرنیٹ ہو گا اور جو عینک نہیں پہنے گا اسکی آنکھوں میں ” انٹرنیٹ لینس لگیں گے اور عینک پہن کر یا لینس لگا کر جب آپ کسی کو دیکھیں سے تو اسکی بائیو گرافی سمیت تمام بنیادی معلومات بھی آپکی آنکھوں کے سامنے ہوں کی مطلب کسی کو دیکھتے ہی یہ معلوم ہو جائے گا کہ جس سے بات ہو رہی ہے ، وہ اصل میں ہے کون یہی نہیں اگر کوئی آپ سے کسی غیر ملکی زبان میں بات کرے گا تو نہ صرف اسکی گفتگو کا ترجمہ خود بخود آپکی زبان میں ہو رہا ہو گا بلکہ سیٹلائٹ کی مدد سے آپ اس سے اس کی زبان میں بات بھی کر رہے ہوں گے مطلب زبان کا مسئلہ بھی حل اور جو اس وقت یہ کہہ رہا ہو کہ ” آنے والا زمانہ Click کا نہیں Blink کا ہو گا یعنی آنکھ Blink کرتی جائے گی اور آپ بات کرنے سے کسی جگہ جانے اور کچھ خریدنے سے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی، چیزوں کی اصل قیمت اور اصل منافع تک سب کچھ جان رہے ہوں گے یعنی کوئی آپکو د جو کہ نہیں دے سکے گا“ اور آنکھوں کے ذریعے سب کچھ کرنا مطلب یہ Blink System کام کیسے کرتا ہے، یہ آپ سائنس فکشن فلم ٹرمینیٹر میں دیکھ سکتے ہیں بلکہ اب تو امریکی فوجیوں کے ہیلمٹ میں انٹرنیٹ اور کیمرہ یوں لگ چکا کہ جب فوجیوں کی نظر کسی پر پڑے تو اگلے ہی لمحے انہیں پتا چل جائے کہ سامنے دوست ہے یاد شمن۔

اتنا کہہ کر امریکی باپ اور جاپانی ماں کے گھر پیدا ہونے والے Popularizer آف سائنس پروفیسر مچیو نے رک کر بے حس و حرکت آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر خود کو دیکھتے حاضرین کی آنکھوں میں لمحہ بھر کیلئے جھانک کر دوبارہ بولنا شروع کیا وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ جب ہماری پوری زندگی ڈیجیٹلائز ہو جائے گی ، آن آپ پیسوں یا بنک کارڈ سے خریداری کرتے ہیں، مستقبل میں یہ سب بھی آپ اپنی آنکھ Bli کر کے خرید لیں گے، پھر قانونی رائے لینے سے کسی بیماری کے حوالے سے جانے تک 99 فیصد سوالوں کے جواب آپکو گھر بیٹھے بٹھائے ملا کریں گے اور میڈیکل سائنس کے حوالے سے تو آنے والی دنیا ایسی انقلابی ہو گی کہ آج جیسے گلی گلی محلے محلے میں مشینوں کے پر دے اور خوب صورت ماربل بن رہے ہیں، مستقبل میں نہ صرف ایسے انسانی اعضاء بن رہے ہوں گے ، نہ صرف ایسے مصنوعی کان اور ناک بنیں گے کہ جو ایک خاص وقت کے بعد خود بخود انسانی جسم کا حصہ بن جائیں گے اور نہ صرف جلد ، خون ، دل کی شریانیں، جگر اور لہل یہ تک بنائے جارہے ہوں گے بلکہ Chip اور ٹی وی کیمر و گولی کی صورت میں نکلنے کے بعد پھر اس Chip اور کیمرے کے ذریعے انسان کے اندر یوں مانیٹرنگ ہوگی کہ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بہاری کا بیماری سے پہلے ہی پتا چل جائے گا۔

یہاں بھی کر دنیائے فزکس کے اس اپنی طرز کے اکلوتے سائنسدان پروفیسر کا کونے ڈائس پر پڑا پانی کا گلاس اٹھا کر اسے ایک سانس میں پیا اور نشو منہ پر رکھ کر ہلکی آواز میں کھنکھار کر گلا صاف کرنے کے بعد اپنی بات پھر سے شروع کی ” آجکل مشینیں یہ تو بتا رہی ہیں کہ سامنے بیٹھا شخص سچ بول رہا ہے یا جھوٹ لیکن آنے والے وقتوں میں ٹیلی پیتھی کے ذریعے نہ صرف دماغی علاج ہو گا، انسانی جذبات و احساسات معلوم ہو سکیں گے نہ صرف انسانی یادداشت کو Chip پر محفوظ کر کے اسے بوقت ضرورت چند سیکنڈز میں Recall بھی کیا جاسکے گابلکہ فوت ہو چکے لوگوں سے گفتگو بھی ممکن ہو گی”۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2016

Loading